Sunday 10 March 2013

Lamhon Ki Paristaar

Posted by Unknown on 07:36 with No comments
لمحوں کی پرستار 
میں نے چاہا تھا اسے روح کی راحت کے لیے
وہ مگر جان کا آزار بنی بیٹھی ہے
میری آنکھوں نے جسے پھول سے نازک سمجھا
اب وہ چلتی ہوئی تلوار بنی بیٹھی ہے
ہم سفر بن کے جسے ناز تھا ہمراہی پر
رہزنوں کی وہ طرفدار بنی بیٹھی ہے
کسی افسانے کا کردار بنی بیٹھی ہے

اس کی معصومیتِ دل پہ بھروسہ تھا مجھے
عزمِ سیتا کی قسم، عصمتِ مریم کی قسم
یاد ہیں اس کے وہ ہنستے ہوئے آنسو مجھ کو
خندۂ گل کی قسم، گریۂ شبنم کی قسم
اس نے جو کچھ بھی کہا میں نے وہی مان لیا
حکمِ حوّا کی قسم، جذبۂ آدم کی قسم
پاک تھی روح مری چشمۂ زمزم کی قسم

میں نے چاہا تھا اسے دل میں چھپا لوں ایسے
جسم میں جیسے لہو، سیپ میں جیسے موتی
عمر بھر میں نہ جھپکتا کبھی اپنی آنکھیں
میرےزانو پہ وہ سر رکھ کے ہمیشہ سوتی
شمعِ یک شب تو سمجھتا ہے اسے ایک جہاں
کاش بن جاتی وہ میرے لیٔے جیون جوتی
در بدر اس کی تمازت نہ پریشاں ہوتی

میں اسے لے کے بہت دور نکل جاؤں مگر
وہ مری راہ میں دیوار بنی بیٹھی ہے
زندگی بھر کی پرستش اسے منظور نہیں
وہ تو لمحوں کی پرستار بنی بیٹھی ہے
میں نے چاہا تھا اسے روح کی راحت کے لیے
وہ مگر جان کا آزار بنی بیٹھی ہے
کسی افسانے کا کردار بنی بیٹھی ہے

0 comments:

Post a Comment