Tuesday, 15 January 2013

کنگن                   

کاش میں تیرے حسین ہاتھ کا کنگن ہوتا

تو بڑے پیار سے چاؤ سے بڑے مان کے ساتھ

اپنی نازک سی کلائی میں چڑھاتی مجھ کو

اور بےتابی سے فرقت کے خزاں لمحوں میں

تو کسی سوچ میں ڈوبی جو گھماتی مجھ کو

میں ترے ہاتھ کی خوشبو سے مہک سا جاتا

جب کبھی موڈ میں آکر مجھے چوما کرتی

تیرے ہونٹوں کی میں حدت سے دہک سا جاتا

رات کو جب بھی نیندوں کے سفر پر جاتی

مرمریں ہاتھ کا اک تکیہ بنایا کرتی

میں ترے کان سے لگ کر کئی باتیں کرتا

تیری زلفوں کو ترے گال کو چوما کرتا

جب بھی بند قبا کھولنے لگتی جاناں

اپنی آنکھوں کو ترے حسن سے خیرہ کرتا

مجھ کو بے تاب سا رکھتا تری چاہت کا نشہ

میں تری روح کے گلشن میں مہکتا رہتا

میں ترے جسم کے آنگن میں کھنکتا رہتا

کچھ نہیں تو یہی بے نام سا بندھن ہوتا

کاش میں تیرے حسین ہاتھ کا کنگن ہوتا

0 comments:

Post a Comment