پی ٹی اے کے سابق ڈائریکٹر (انفورسمنٹ) سجاد لطیف اعوان پاکستان ٹیلی
کمیونی کیشن اتھارٹی کے دونوں ممبرز کی جانب سے جاری ہونے والے ٹرانسفر کے
احکامات کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچ گئے۔
جناب سجاد لطیف اعوان، اور ٹرانسفر کیے گئے دوسرے ملازم فیصل بشیر سابق
ڈائریکٹر (وجیلنس) نے عدالت میں موقف اختیار کیا کہ پاکستان ٹیلی کمیونی
کیشن اتھارٹی کے ممبر فنانس اور ممبر ٹیکنیکل کی جانب سے جاری کردہ احکامات
قانون کے مطابق نہیں۔
درخواست گزار نے موقف اختیار کیا کہ ایسے تمام آپریشنل احکامات صرف
چیئرمین جاری کر سکتا ہے اور کیبنٹ ڈویژن بھی دونوں ممبرز کو احکامات جاری
کر چکا ہے کہ وہ چیئرمین کی حیثیت نہ اختیار کریں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے پٹیشن سماعت کے لیے قبول کرتے ہوئے اگلی سماعت
یعنی 11 فروری 2013ء تک دونوں کے ٹرانسفرز پر حکم امتناعی جاری کر دیا۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ پی ٹی اے کے ممبر فنانس نصر الکریم غزنوی اور
ممبر ٹیکنیکل خاور صدیق کھوکھر لطیف اعوان کو گریجویٹ انجینئرنگ ڈگری نہ
ہونے پر عہدے سے برطرف کر دیا تھ، جو اس عہدے کے لیے ایک لازمی شرط ہے۔
مزید برآں اس حکم میں کہا گیا ہے کہ لطیف اعوان پاکستان انجینئرنگ کونسل
میں رجسٹرڈ نہیں، جو ڈی جی انفورسمنٹ کے عہدے کے لیے ایک اور لازمی شرط ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ عملے کے جن تمام اراکین کا تبادلہ کیا گیا ہے ان سب کو سابق چیئرمین فاروق اعوان نے ادارے میں داخل کیا تھا۔
تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ جناب فاروق عوان کی بحیثیت چیئرمین غیر قانونی تقرری،
پھر فاروق اعوان کی جانب سے ڈی جی انفورسمنٹ اور ڈائریکٹر وجیلنس کی
شمولیت اور اب حکومت کی جانب سے دونوں تقرریوں کو تحفظ فراہم کرنا (جن میں
سے ایک سرے سے کوالیفکیشن پر پورا ہی نہیں اترتا) جس کے لیے ایف آئی اے نے پی ٹی اے کے ہیڈکوارٹر پر چھاپہ بھی مارا اور
ممبرز کو ہراساں کرنے کے ساتھ انہیں تقریباً اغوا بھی کر لیا تھا، اس امر
کو ظاہر کرتا ہے کہ پس منظر میں کوئی بہت ہی سنجیدہ معاملہ چل رہا ہے۔
مزید برآں پی ٹی اے پر چھاپے کی خواجہ صدیق اکبر، سیکرٹری داخلہ کی جانب
سے قیادت بھی اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ اس پورے کھیل میں وزارت داخلہ کا
کوئی چکر ہے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ ڈائریکٹر وجیلنس اور ڈی جی انفورسمنٹ گرے انٹرنیشنل ٹیلی فونی کی کنٹرولنگ/کورنگ کے لیے کلیدی عہدے ہیں۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ پی ٹی اے میں یہ پوری رسہ کشی اب اپنی اختتام کو
پہنچ رہی ہے کیونکہ عدالت فیصلوں اور ان کی قانونی حیثیت کے بارے میں فیصلہ
کرنے جا رہی ہے۔
ذیل میں وہ آرڈر ہے جو دونوں ممبرز کی حیثیت سے لطیف اعوان کی معطلی کے لیے جاری کیا گیا تھا:


0 comments:
Post a Comment