Thursday, 14 February 2013


 کیا تقدیر کے موافق کام کرنے پر آدمی مجبور ہے؟ 
اللہ عزوجل نے بندوں کو فرمایا، انھیں کان، آنکھ ، ہاتھ، پاؤں ، زبان وغیرہ عطا فرمائے اور انھیں کام میں لانے کا طریقہ الہام فرمایا پھر اعلیٰ درجے کے شریف جوہر یعنی عقل سے ممتاز فرمایا جس نے تمام حیوانات پر انسان کا مرتبہ بڑھایا۔ پھر لاکھوں باتیں ہیں جن کا عقل ادراک نہ کر سکتی تھی لہٰذا انبیاء بھیج کر کتابیں اتار کر ذرا ذرا سی بات جتا دی اور کسی کو عذر کی کوئی جگہ باقی نہ چھوڑی۔ آدمی جس طرح نہ آپ سے آپ بن سکتا تھا نہ اپنے لیے کان، ہاتھ، پاؤں، زبان وغیرہ بنا سکتا تھا یونہی اپنے لیے طاقت ،قوت، ارادہ، اختیار بھی نہیں بنا سکتا، سب کچھ اسی نے دیا اور اسی نے بنایا۔ انسان کو ایک نوع اختیار دیا کہ ایک کام چاہے کرے چاہے نہ کرے، تو اس ارادہ اختیار کے پیدا ہونے سے آدمی صاحبِ ارادہ وصاحب اختیار ہوا نہ کہ مضطر ، مجبور، ناچار، آدمی اور پتھر کی حرکت میں فرق کیا ہے، یہی کہ وہ ارادہ اختیار نہیں رکھتا اور آدمی میں اللہ تعالیٰ نے یہ صفت پید اکی تو یہ کیسی الٹی مت ہے کہ جس صفت کے پیدا ہونے نے انسان کو پتھر سے ممتاز کیا۔ اسی کی پیدائش کو اپنے پتھر ہو جانے کا سبب سمجھے اور دیگر جمادات کی طرح اپنے آپ کو بے حس و حرکت اور مجبور جانے۔

0 comments:

Post a Comment