ویلنٹائن ڈے منانے والوں پر طنز
میری دل و جان سے پیاری محبوبہ !
آج ویلنٹائنز ڈے ہے اور میں یہ پھول تمہیں اس عہد کے ساتھ بھیج رہا ہوں کہ
میں اپنے ماں باپ ‘ بہن بھائی حتیٰ کہ اپنی دہی بھلوں کی دوکان تک چھوڑ
دوں گا لیکن تمہیں کبھی نہیں چھوڑوں گا۔جس کسی
نے بھی ہماری محبت کی راہ میں رکاوٹ بننے کی کوشش کی ‘میں اُسے بھی نہیں
چھوڑوں گا۔جان من! تم نے رات کو جو میسج کیا تھا وہ غالباً فارورڈنگ میسج
تھا کیونکہ جس کی طرف سے میسج آیا تھا آخر میں اُس کا نام بھی لکھا ہوا
تھا‘ براہ کرم میسج فارورڈ کرنے سے پہلے خود بھی پڑھ لیا کرو ۔بائی دی وے
یہ سلطان ہے کون؟؟؟ اب یہ نہ کہنا کہ تمہارادور کا کزن ہے‘ ڈیڑھ سالوں میں
تم اپنے ڈیڑھ سو کزن بنا چکی ہو۔ چلو چھوڑو! آج کے دن یہ گلے شکوے اچھے
نہیں لگتے۔ یہ پھول جو میں اس خط کے ساتھ بھیج رہا ہوں اِن کی خوشبو تھوڑی
کم تھی اس لیے میں نے ان پر’’بلی مارکہ عطر‘‘ چھڑک دیا ہے‘ سونگھتے وقت ناک
اور پھولوں میں ذرا فاصلہ رکھنا ورنہ مجھ پر کیس بھی بن سکتاہے۔
جان من! تمہیں یاد ہے جب ہم پہلی بار ملے تھے؟ تم اپنی امی کے ساتھ اچھرہ میں تیز مرچوں والے دہی بھلے کھانے آئی تھیں۔ تم نے بڑی محبت سے میری آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا تھا’’میٹھی چٹنی نہ ڈالنا‘‘۔ مجھے اُسی وقت تم سے پیار ہوگیا تھا کیونکہ چٹنی مجھے بھی اچھی نہیں لگتی۔مجھے یاد ہے تم نے دہی بھلے کھاتے ہوئے دو دفعہ ’’پاپڑی‘‘ ڈلوائی تھی اوربعد میں ’’گریوی‘‘ بھی مانگی تھی۔ میں اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتا ہوں کہ اُس روز میں نے تم سے پیسے نہیں لیے اور یوں تمہیں مجھ سے شدید محبت ہوگئی۔جان! میں نے جس جس کو بھی تمہاری تصویر دکھائی اُس نے بہت تعریف کی‘ اُستاد جی تو آج تک کہتے ہیں کہ ’’بڑی اخیر چیز اے‘‘۔ یقین کرو آج ویلنٹائنز ڈے کے موقع پر میرا بہت جی چاہ رہا تھا کہ تمہیں پھولوں کے ساتھ کوئی گفٹ بھی بھیجوں لیکن اُستاد بڑا خبیث ہے‘ میں نے پیسے مانگے تو آنکھیں نکال کر بولا کہ ابھی تو آدھا مہینہ بھی نہیں گذرا‘ پیسے کس بات کے؟؟؟ لیکن جان تم فکر نہ کرنا‘ میں نے تمہارے لیے ایک جرسی خریدنی ہے ‘ بس ذرا سیل لگ جائے۔جان ! پچھلے ہفتے جو تم اپنی ایک سہیلی کے ساتھ دوکان پر آئی تھیں وہ کون ہے؟بڑی فضول سی شکل ہے اُسکی‘ تمہارے سامنے تو بالکل بونگی لگ رہی تھی‘میرا تو اُس کی طرف دیکھنے کو بھی دل نہیں کر رہا تھا‘ اُس نے جو ٹاپس پہنے ہوئے تھے وہ اُسے بالکل بھی سوٹ نہیں کر رہے تھے‘ میک اپ بھی کچھ زیادہ ہی کیا ہوا تھا اورہرے رنگ کے سینڈل تو بہت ہی برے لگ رہے تھے‘ اور اُس نے دائیں پیر میں جو پائل پہنی ہوئی تھی وہ بھی پرانے ڈیزائن کی لگ رہی تھی۔تم تو اُس کے مقابلے میں حور لگ رہی تھیں‘ اُس کا تو صرف رنگ چٹا تھا باقی تو بہت بدصورت تھی۔کیا وہ تمہارے ہی محلے میں رہتی ہے؟؟؟
جان ! مزے کی بات سنو‘ رات ماں کی طبیعت بڑی خراب تھی‘ کھانس کھانس کر برا حال ہورہا تھا‘ کہنے لگیں کہ مجھے دوائی لادو‘ میں نے اُن سے پیسے لیے اور اپنے جوڑے ہوئے پیسوں میں شامل کر کے ساڑھے پانچ سو کا گلدستہ خرید لیا اور واپسی پر رونی صورت بنا کرماں کو بتایا کہ پیسے راستے میں کہیں گر گئے ہیں ۔ماں نے ڈانٹنے کی بجائے مجھے تسلی دی کہ کوئی بات نہیں میں گرم پانی میں نمک ملا کر غرارے کر لیتی ہوں تم پریشان نہ ہو۔دیکھا جان! میں تم سے کتنی محبت کرتا ہوں‘ ماں تو پھر بھی مل جاتی ہے‘ تم جیسی پیاری اور محبت کرنے والی لڑکی دوبارہ کہاں مل سکتی ہے۔اور ہاں! جان تمہیں بتایا تھا ناں کہ اگلے مہینے میری بڑی باجی کی شادی ہورہی ہے‘ اماں نے اپنا کچھ زیور اُس کے لیے پالش کروایا تھا‘ میں نے چپکے سے اُس میں سے تمہارے لیے ایک چوڑی نکال لی ہے ‘ گلدستے کے اندر رکھی ہے‘ دل کرے تو پہن لینا ورنہ لگ بھگ بیس ہزار کی بک جائے گی ‘ ٹچ فون لے لینا۔جان تم نے بتایا تھا کہ تمہاری امی کو جوڑوں کا درد رہتا ہے اور تمہارے پاس اُن کے علاج کے لیے پیسے نہیں ہوتے‘ اب فکر مت کرنا‘ میں نے سوچ لیا ہے کہ آئندہ اپنی تنخواہ میں سے بارہ سو روپے تمہیں اپنی امی کے علاج کے لیے دیا کروں گا‘ آخر میں بھی تو اُن کا بیٹا ہوں‘ ویسے بھی مائیں تو سانجھی ہوتی ہیں۔ جان تم آج کے دن کیا کر رہی ہو؟ کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ ہم تھوڑی دیر کے لیے کمپنی باغ کا ایک چکر لگا لیں؟اگر تمہارا اکیلے جانا مشکل ہو تو پھر اپنی امی‘ بہنوں اور چھوٹے بھائی کو بھی ساتھ لے لینا‘ سب رکشے میں چلیں گے اور کون آئسکریم کھائیں گے‘ لیکن پیسے میں دوں گا‘ پلیز ضد نہ کرنا۔ میرا موبائل بالٹی میں گر گیا تھا‘ سوکھنے کے لیے دھوپ میں رکھا ہوا ہے‘ تمہارا موبائل بھی کبھی پانی میں گر جائے تو آن نہ کرنا بلکہ دھوپ میں رکھ دینا‘ جب پانی سوکھ جائے تو آن کرنا‘ بالکل ٹھیک ہوجائے گا۔
اچھا یہ بتاؤ تم نے مجھے یاد کیا؟؟ میں تو ہر وقت تمہاری یادوں میں کھویا رہتا ہوں‘ کسی چیز کی ہوش ہی نہیں رہتی‘ کل بھی ایک گاہک کو دہی بھلوں کی جگہ فروٹ چاٹ پکڑا دی۔جان ایک بات کہنی تھی‘ ڈر رہا ہوں کہیں تم برا نہ مان جاؤ۔۔۔پوچھنا یہ تھاکہ کیا تم نے بھی میرے لیے کوئی پھول خریدے ہیں‘ اگر نہیں خریدے تو کوئی بات نہیں‘ تم تو خود پھول ہو‘ ویسے بھی پھولوں کی دوکانوں پر آج کل بہت رش ہے‘ تمہارا نہ جانا ہی بہتر ہے‘ لفنگے قسم کے لڑکے کندھے مارتے ہیں۔اگر تمہارے ساتھ کوئی ایسی حرکت کرے تو ایک دفعہ مجھے ضرور بتانا‘ میرے ماموں کا بیٹا ڈی آئی جی کے دفتر میں آفس بوائے ہے ۔اُس نے بھی تمہاری تصویر دیکھی ہوئی ہے اوراکثرکہتا رہتا ہے کہ ’’یار بھابی کی آنکھیں کتنی پیاری ہیں‘‘۔جان تم نے بتایا تھا کہ کوئی لڑکا تمہیں فون پر تنگ کرتا ہے اور آئی لو یو کہتا ہے‘ اُس کا نمبر مجھے بتاؤ‘ میں اُسے بتاؤ ں گا کہ میں کیا ہوں۔ آئندہ اُس کا فون آئے تو اُسے ایک دفعہ میرا نام ضرور بتا دینا اور یہ بھی بتانا کہ میں کتنا ظالم ہوں۔جان ابھی ابھی سامنے والی دوکان سے ایک لڑکی ایزی لوڈ کروا کے نکلی ہے‘ یہ ہوبہو تمہاری بدصورت سہیلی کی شکل کی لگ رہی ہے‘ ذرا پتا کرکے بتانا کہ کیا تمہاری سہیلی کے بال بھی سنہری ہیں؟؟؟ اگر یہ تمہاری سہیلی ہی ہے تو مجھے اس کا کردار کچھ ٹھیک نہیں لگ رہا‘ اس کا دوپٹہ بھی ڈھلک رہا ہے اور دوکاندار کو اپنا فون نمبر بھی بلند آواز میں بتا رہی ہے۔خیر گولی مارو۔۔۔اس کا اور تمہارا کیا مقابلہ‘ تم تو پری ہو‘ پتا ہے جب تم گلی کا موڑ مڑتے ہوئے مجھے آنکھ مارتی ہو تو بالکل ودیا بالن لگتی ہو۔کسی دن ٹائم نکالو‘ ڈرٹی پکچر دیکھتے ہیں۔جان کاغذ ختم ہورہا ہے لیکن دل ابھی نہیں بھرا۔۔۔کاش تم میرے سامنے ہوتیں تو میں اپنا دل چیر کر تمہیں دکھاتا کہ اس میں تمہارے لیے کتنی محبت بھری ہوئی ہے۔جان یاد آیا۔۔۔مجھے فون کرتے وقت دھیان رکھا کرو کہ اگر میرے ابا جی فون اٹھا لیں تو اُن سے کوئی بات نہیں کرنی۔ وہ محبت کے سخت دشمن ہیں‘ بلاوجہ غصہ کرنے لگتے ہیں حالانکہ محبت تو ایک پاکیزہ جذبہ ہے‘ محبت کے بغیر تو انسان ادھورا ہے‘ ابھی کل سلمان خان ایک فلم میں کہہ رہا تھا کہ ’’محبت سانس کی طرح ہوتی ہے‘ رک جائے تو انسان مر جاتاہے‘‘۔ جان! تم بھی میری سانس ہو‘ بھاڑ میں گئے سارے خونی رشتے۔۔۔محبت کے آگے سب بیکار ہیں!!! جان I love you ۔۔۔ویلنٹائنز ڈے پر یہ خوبصورت شعر تمہارے نام!!!
اے پھول میرے پھول کو یہ پھول دے دینا
کہنا کہ تیرے پھول نے یہ پھول دیا ہے
جان من! تمہیں یاد ہے جب ہم پہلی بار ملے تھے؟ تم اپنی امی کے ساتھ اچھرہ میں تیز مرچوں والے دہی بھلے کھانے آئی تھیں۔ تم نے بڑی محبت سے میری آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا تھا’’میٹھی چٹنی نہ ڈالنا‘‘۔ مجھے اُسی وقت تم سے پیار ہوگیا تھا کیونکہ چٹنی مجھے بھی اچھی نہیں لگتی۔مجھے یاد ہے تم نے دہی بھلے کھاتے ہوئے دو دفعہ ’’پاپڑی‘‘ ڈلوائی تھی اوربعد میں ’’گریوی‘‘ بھی مانگی تھی۔ میں اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتا ہوں کہ اُس روز میں نے تم سے پیسے نہیں لیے اور یوں تمہیں مجھ سے شدید محبت ہوگئی۔جان! میں نے جس جس کو بھی تمہاری تصویر دکھائی اُس نے بہت تعریف کی‘ اُستاد جی تو آج تک کہتے ہیں کہ ’’بڑی اخیر چیز اے‘‘۔ یقین کرو آج ویلنٹائنز ڈے کے موقع پر میرا بہت جی چاہ رہا تھا کہ تمہیں پھولوں کے ساتھ کوئی گفٹ بھی بھیجوں لیکن اُستاد بڑا خبیث ہے‘ میں نے پیسے مانگے تو آنکھیں نکال کر بولا کہ ابھی تو آدھا مہینہ بھی نہیں گذرا‘ پیسے کس بات کے؟؟؟ لیکن جان تم فکر نہ کرنا‘ میں نے تمہارے لیے ایک جرسی خریدنی ہے ‘ بس ذرا سیل لگ جائے۔جان ! پچھلے ہفتے جو تم اپنی ایک سہیلی کے ساتھ دوکان پر آئی تھیں وہ کون ہے؟بڑی فضول سی شکل ہے اُسکی‘ تمہارے سامنے تو بالکل بونگی لگ رہی تھی‘میرا تو اُس کی طرف دیکھنے کو بھی دل نہیں کر رہا تھا‘ اُس نے جو ٹاپس پہنے ہوئے تھے وہ اُسے بالکل بھی سوٹ نہیں کر رہے تھے‘ میک اپ بھی کچھ زیادہ ہی کیا ہوا تھا اورہرے رنگ کے سینڈل تو بہت ہی برے لگ رہے تھے‘ اور اُس نے دائیں پیر میں جو پائل پہنی ہوئی تھی وہ بھی پرانے ڈیزائن کی لگ رہی تھی۔تم تو اُس کے مقابلے میں حور لگ رہی تھیں‘ اُس کا تو صرف رنگ چٹا تھا باقی تو بہت بدصورت تھی۔کیا وہ تمہارے ہی محلے میں رہتی ہے؟؟؟
جان ! مزے کی بات سنو‘ رات ماں کی طبیعت بڑی خراب تھی‘ کھانس کھانس کر برا حال ہورہا تھا‘ کہنے لگیں کہ مجھے دوائی لادو‘ میں نے اُن سے پیسے لیے اور اپنے جوڑے ہوئے پیسوں میں شامل کر کے ساڑھے پانچ سو کا گلدستہ خرید لیا اور واپسی پر رونی صورت بنا کرماں کو بتایا کہ پیسے راستے میں کہیں گر گئے ہیں ۔ماں نے ڈانٹنے کی بجائے مجھے تسلی دی کہ کوئی بات نہیں میں گرم پانی میں نمک ملا کر غرارے کر لیتی ہوں تم پریشان نہ ہو۔دیکھا جان! میں تم سے کتنی محبت کرتا ہوں‘ ماں تو پھر بھی مل جاتی ہے‘ تم جیسی پیاری اور محبت کرنے والی لڑکی دوبارہ کہاں مل سکتی ہے۔اور ہاں! جان تمہیں بتایا تھا ناں کہ اگلے مہینے میری بڑی باجی کی شادی ہورہی ہے‘ اماں نے اپنا کچھ زیور اُس کے لیے پالش کروایا تھا‘ میں نے چپکے سے اُس میں سے تمہارے لیے ایک چوڑی نکال لی ہے ‘ گلدستے کے اندر رکھی ہے‘ دل کرے تو پہن لینا ورنہ لگ بھگ بیس ہزار کی بک جائے گی ‘ ٹچ فون لے لینا۔جان تم نے بتایا تھا کہ تمہاری امی کو جوڑوں کا درد رہتا ہے اور تمہارے پاس اُن کے علاج کے لیے پیسے نہیں ہوتے‘ اب فکر مت کرنا‘ میں نے سوچ لیا ہے کہ آئندہ اپنی تنخواہ میں سے بارہ سو روپے تمہیں اپنی امی کے علاج کے لیے دیا کروں گا‘ آخر میں بھی تو اُن کا بیٹا ہوں‘ ویسے بھی مائیں تو سانجھی ہوتی ہیں۔ جان تم آج کے دن کیا کر رہی ہو؟ کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ ہم تھوڑی دیر کے لیے کمپنی باغ کا ایک چکر لگا لیں؟اگر تمہارا اکیلے جانا مشکل ہو تو پھر اپنی امی‘ بہنوں اور چھوٹے بھائی کو بھی ساتھ لے لینا‘ سب رکشے میں چلیں گے اور کون آئسکریم کھائیں گے‘ لیکن پیسے میں دوں گا‘ پلیز ضد نہ کرنا۔ میرا موبائل بالٹی میں گر گیا تھا‘ سوکھنے کے لیے دھوپ میں رکھا ہوا ہے‘ تمہارا موبائل بھی کبھی پانی میں گر جائے تو آن نہ کرنا بلکہ دھوپ میں رکھ دینا‘ جب پانی سوکھ جائے تو آن کرنا‘ بالکل ٹھیک ہوجائے گا۔
اچھا یہ بتاؤ تم نے مجھے یاد کیا؟؟ میں تو ہر وقت تمہاری یادوں میں کھویا رہتا ہوں‘ کسی چیز کی ہوش ہی نہیں رہتی‘ کل بھی ایک گاہک کو دہی بھلوں کی جگہ فروٹ چاٹ پکڑا دی۔جان ایک بات کہنی تھی‘ ڈر رہا ہوں کہیں تم برا نہ مان جاؤ۔۔۔پوچھنا یہ تھاکہ کیا تم نے بھی میرے لیے کوئی پھول خریدے ہیں‘ اگر نہیں خریدے تو کوئی بات نہیں‘ تم تو خود پھول ہو‘ ویسے بھی پھولوں کی دوکانوں پر آج کل بہت رش ہے‘ تمہارا نہ جانا ہی بہتر ہے‘ لفنگے قسم کے لڑکے کندھے مارتے ہیں۔اگر تمہارے ساتھ کوئی ایسی حرکت کرے تو ایک دفعہ مجھے ضرور بتانا‘ میرے ماموں کا بیٹا ڈی آئی جی کے دفتر میں آفس بوائے ہے ۔اُس نے بھی تمہاری تصویر دیکھی ہوئی ہے اوراکثرکہتا رہتا ہے کہ ’’یار بھابی کی آنکھیں کتنی پیاری ہیں‘‘۔جان تم نے بتایا تھا کہ کوئی لڑکا تمہیں فون پر تنگ کرتا ہے اور آئی لو یو کہتا ہے‘ اُس کا نمبر مجھے بتاؤ‘ میں اُسے بتاؤ ں گا کہ میں کیا ہوں۔ آئندہ اُس کا فون آئے تو اُسے ایک دفعہ میرا نام ضرور بتا دینا اور یہ بھی بتانا کہ میں کتنا ظالم ہوں۔جان ابھی ابھی سامنے والی دوکان سے ایک لڑکی ایزی لوڈ کروا کے نکلی ہے‘ یہ ہوبہو تمہاری بدصورت سہیلی کی شکل کی لگ رہی ہے‘ ذرا پتا کرکے بتانا کہ کیا تمہاری سہیلی کے بال بھی سنہری ہیں؟؟؟ اگر یہ تمہاری سہیلی ہی ہے تو مجھے اس کا کردار کچھ ٹھیک نہیں لگ رہا‘ اس کا دوپٹہ بھی ڈھلک رہا ہے اور دوکاندار کو اپنا فون نمبر بھی بلند آواز میں بتا رہی ہے۔خیر گولی مارو۔۔۔اس کا اور تمہارا کیا مقابلہ‘ تم تو پری ہو‘ پتا ہے جب تم گلی کا موڑ مڑتے ہوئے مجھے آنکھ مارتی ہو تو بالکل ودیا بالن لگتی ہو۔کسی دن ٹائم نکالو‘ ڈرٹی پکچر دیکھتے ہیں۔جان کاغذ ختم ہورہا ہے لیکن دل ابھی نہیں بھرا۔۔۔کاش تم میرے سامنے ہوتیں تو میں اپنا دل چیر کر تمہیں دکھاتا کہ اس میں تمہارے لیے کتنی محبت بھری ہوئی ہے۔جان یاد آیا۔۔۔مجھے فون کرتے وقت دھیان رکھا کرو کہ اگر میرے ابا جی فون اٹھا لیں تو اُن سے کوئی بات نہیں کرنی۔ وہ محبت کے سخت دشمن ہیں‘ بلاوجہ غصہ کرنے لگتے ہیں حالانکہ محبت تو ایک پاکیزہ جذبہ ہے‘ محبت کے بغیر تو انسان ادھورا ہے‘ ابھی کل سلمان خان ایک فلم میں کہہ رہا تھا کہ ’’محبت سانس کی طرح ہوتی ہے‘ رک جائے تو انسان مر جاتاہے‘‘۔ جان! تم بھی میری سانس ہو‘ بھاڑ میں گئے سارے خونی رشتے۔۔۔محبت کے آگے سب بیکار ہیں!!! جان I love you ۔۔۔ویلنٹائنز ڈے پر یہ خوبصورت شعر تمہارے نام!!!
اے پھول میرے پھول کو یہ پھول دے دینا
کہنا کہ تیرے پھول نے یہ پھول دیا ہے
0 comments:
Post a Comment