Monday, 18 February 2013

                    کفار کے آل یاسر پر مظالم

جیسے ہی کفار مکہ کو حضرت یاسر انکی بیوی حضرت سمیہ اور بیٹے عمار رضی اللہ عنہم کے مسلمان ہونے کی خبر ملی تو بنی مخزوم کے لوگ غیظ و غضب میں جل اٹھے اور اپنے ناپاک ارادوں کی تکمیل کے لیے آل یاسر رضی اللہ عنہ پر تکالیف کا دائرہ بڑھا دیا۔ ان توحید کے متوالوں کو اتنا مارتے تھے کہ ان کا جسم مبارک خون میں سرخ ہوجاتا تھا، پھر کفار کہتے تھے کہ اب بتاؤ ایمان کو چھوڑتے ہو یا نہیں، اگر نہیں چھوڑو گے تو ہم تمہیں ایسی عبرتناک سزائیں دیں گے کہ لوگوں کے لیے مثال بن جاؤ گے۔ جب کفار مکہ یہ اپنا ناپاک ارادہ ظاہر کرتے تھے تو یہ تینوں فرماتے تھے کہ محمد رسول صلّی اللہ علیہ وسلم پر ہماری ہزار جانیں بھی قربان ہیں، اگر ہم اسی حالت میں بھی فوت ہوگئے تو ہمیں موت سے کوئی شکوہ نہیں، بلکہ ہم فخر سے کہیں گے کہ محبوب صلّی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں قربان ہوئے ہیں۔ یہ جواب سن کر کفار جل جاتے تھے۔ پھر ان کو لکڑیوں، گھونسوں اور لاتوں سے اتنا پیٹتے تھے کہ یہ مظلوم بے ہوش ہوجاتے تھے، پھر جب ہوش میں آتے تھے کفار پوچھتے تھے بتاؤ اب کیا ارادہ ہے، اذیتیں برداشت کرنے کا شوق ہے یا ایمان چھوڑتے ہو۔ یہ سن کر یہ مجاہدینِ نبی کریم صلّی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ دامن مصطفی کو ہم کیسے چھوڑدیں، ہمارا اتنا کمزور ایمان نہیں۔ ایک مرتبہ ظالم کفار کے ہاتھوں سے یہ تینوں اذیت ناک سزائیں جھیل رہے تھے تو وہاں سے ہادی حق حضرت محمد صلّی اللہ علیہ وسلم کا گذر ہوا۔ ان کی مظلومی و بیکسی دیکھ کر آپ کا دل بھر آیا تو فرمانے لگے ”اِصْبِرُوْ یآ اٰلِ یَاسِرَ فَاِنَّ مَوْعِدَ کُمْ الجَنَّۃ“ اے آل یاسر! صبر کرو، تمہاری جگہ جنت ہے۔ ایسی بدترین سزاؤں سے بھی کفار کا سینہ ٹھنڈا نہیں ہوا اور زیادہ اذیت ناک سزا دینے کے لیے کفار مکہ کے سردار ابوجہل نے حضرت بی بی سمیہ رضی اللہ عنہا کو فرط غضب میں سب و شتم کی بوچھاڑ کی اور پھر اس مظلوم عورت کو برچھی مارکر شہید کردیا اور یوں حضرت بی بی سمیہ رضی اللہ عنہا تاریخ اسلام کی پہلی شہید خاتون بن گئیں۔ جب یہ کربناک خبر حضرت یاسر بن عامر رضی اللہ عنہ کو ملی کہ اس کی بیوی کو ظالموں نے شہید کردیا ہے تو اس اندوہناک خبر سے حضرت یاسر رضی اللہ عنہ کوبہت صدمہ پہنچا اور روتے ہوئے اپنے محبوب آقا صلّی اللہ علیہ وسلم کے دربار اقدس میں حاضر ہوکر عرض کیا یا رسول اللہ! صلّی اللہ علیہ وسلم اب تو ظالموں نے ظلم کی انتہا کردی۔ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے اور حضرت یاسر رضی اللہ عنہ کو صبر کی تلقین فرمائی اور فرمایا ”اللّٰہم لَا تُعَذِبْ اَحْداً من آل یاسر بالنار“ اے اللہ! خاندان یاسر کو دوزخ کی آگ سے بچانا۔
اس واقعہ کے بعد بھی ظالموں کے ناپاک ارادے ختم نہ ہوئے بلکہ اور بھی زیادہ مضبوط ہوگئے۔ پھر چشم فلک نے دیکھا کہ کفار مکہ نے مظلوم بوڑھے یاسر رضی اللہ عنہ کو اتنا مارنا شروع کردیا کہ آپ بے ہوش ہوگئے۔ جب ہوش میں آتے تھے تو کفار کہتے تھے اپنا آخری انجام بھی عنقریب دیکھ لوگے ورنہ تم ایمان کو چھوڑدو۔ آپ فرماتے تھے ظالمو تم میری جان تو لے سکتے ہو، میری مظلومہ بیوی کو شہید کرسکتے ہو، میرے محبوب بیٹے عمار پر تکلیف کی لرزہ خیز سزاؤں کی داستانیں تو قائم کرسکتے ہو، لیکن ہمارے قلوب میں میرے کریم رب نے جو اسلام کا بیج بویا ہے اس کو تا قیامت اکھاڑ نہیں سکو گے، غیظ و غضب میں جل کے مرجاؤ گے لیکن میرے ایمان کو کچھ نہیں کرسکو گے۔ یہ صبر کے پہاڑ تھے جنہوں نے اسلام کی خاطر ایسی سزائیں برداشت کیں کہ اگر پہاڑوں پر گرتیں تو وہ بھی پرزہ پرزہ ہوجاتے، لیکن اس مرد حق پرست کے ارادے کو مٹا نہیں سکے۔ یہ وہ لوگ تھے جن کے لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ ”اُوْلٰٓئکَ ہُمْ المُوْمِنُونَ حَقَّا“۔ (انفال) یہی سچے مؤمن ہیں۔
با الآخر حضرت یاسر رضی اللہ عنہ بھی ان ظالموں کی سزائیں سہتے سہتے شہید ہوگئے لیکن اپنے محبوب آقا صلّی اللہ علیہ وسلم کے دامن کو اپنے ہاتھوں سے نہیں چھوڑا۔ رضی اللہ عنہم۔
(حیات الصحابہ)

0 comments:

Post a Comment