Tuesday 12 March 2013

ALLAH is Sufficient To Us

Posted by Unknown on 22:19 with No comments

 جب عبد اللہ عباسی نے دمشق فتح کیا تو صرف ایک گھنٹے میں بہت سارے مسلمانوں کی کثیر تعداد کا ناحق خون بہادیا اور خلافت امویہ کی سب سے بڑی مسجد کے اندر اپنے گھوڑوں داخل کردیا!! پھر وزراء کے ساتھ بیٹھا اور بطور فخر پوچھا:
کیا اب میرا کوئی مقابلہ کرسکتا ہے؟
جواب ملا: نہیں-
اس نے پھر پوچھا:
کیا تم لوگوں کو کسی کے بارے میں علم ہے جو مجھ پر اعتراض کرنے کی جراءت رکھتا ہو؟
وزراء نے جواب دیا: نہیں، ہاں اگر کوئی جواب دینے کی جراءت کرسکتا ہے تو وہ اوزاعی ہیں-
عبداللہ عباسی نے کہا: اوزاعی کو میری خدمت میں حاضر کرو-
چنانچہ فوجی امام اوزاعی کو لانے گئے، لیکن انھیں دیھک کر امام صاحب نے اپنی جگہ سے بالکل حرکت نہیں کی-
فوجیوں نے کہا: عبداللہ کے دربار میں آپ کا بلاوا ہے-
امام اوزاعی نے ان سے کہا:
{ حسبنا اللہ ونعم الوکیل}
"ہمیں اللہ ہی کافی ہے اور وہ بہت اچھا کارساز ہے-"
تم لوگ تھوڑی دیر میرا انتظار کرو-
پھر اندر گئے- غسل فرمایا، کفن ویب تن کیا اور موت کے لیے خود کو تیار کرلیا اور اپنے آپ سے مخاطب ہوکر فرمایا:
" اے اوزاعی! اب وقت قریب آن پہنچا ہے کہ تو حق بات کہے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے ہرگز نہ ڈرے-"
امام اوزاعی خود یہ قصہ بیان کرتے ہیں:
میں عبد اللہ کے دربار میں داخل ہوا تو وہان فوجیوں کا ہجوم تھا- ان فوجیوں کی دو صفیں تھیں اور ہر فوجی اپنی اپنی تلوار میان سے نکال کر سونتے ہوئے تھا- میں تلواروں کے سایے مین چلتے ہوئے عبداللہ تک پہنچا- وہ اپنے پلنگ پر بیھٹا ہوا تھا- اس کے ہاتھ میں ایک کوڑا تھا اور اس کی پیشانی پر غصے کے آثار نمایاں تھے-
امام اوواعی کہتے ہیں:
جب میں نے عبداللہ عباسی کو دیکھا تو وہ میری نگاہ میں مکھی کی مانند حقیر تھا- مین نے اس وقت کسی کو یاد نہیں کیا، نہ تو اہل کو، نہ مال کو اور نہ اولاد کو، بلکہ میں عرش الہی کو یاد کیا جب اللہ تعالی قیامت کے دن لوگوں کے سامنے ظاہر ہوگا-
عبداللہ بن علی نے اپنی نگاہ اوپر اٹھائی تو اس کے چہرے سے غصے کا خون ٹپک رہا تھا- وہ گویا ہوا:
اے اوزاعی! ہم نے جو بنو امیہ کا خون بہایا ہے، اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
امام اوزاعی نے جواب دیا:
حصرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" تین صورتوں کے علاوہ کسی مسلمان کا خون بہانا جائز نہیں، شادی شدہ زانی، خون کا بدل خون اور دین حق کو چھوڑنے والا-"
( صحیح بخاری، الدیات، باب قول اللہ "النفس بالنفس"، حدیث:6878)
لہذا تم نے جن کو قتل کیا اگر ان کا شمار ان تین قسم کے لوگوں میں ہو تب ٹھیک ہے، ورنہ ان کا ناحق خون تمہاری گرن پر ہے-
امام اوزاعی کہتے ہیں: یہ سن کر اس نے کوڑے کا بل کھلا اور میں نے عمامہ اتارلیا کیونکہ اب میں تلوارکا انتطار کررہا تھا! میں نے وزراء کو دیکھا جو اپنے کپڑے سمیٹ رہے تھے تاکہ کپڑوں پر میرے خون کے چھنٹے نہ پڑنے پائيں-
پھر عبداللہ عباسی نے سوال کیا: مال و دولت کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
امام اوزاعی نے جواب دیا:
"اگر حلال ہے تو بہرحال حساب دینا ہے، اور اگر حرام ہے تو سزا بھگتنی پڑے گی-"
عبداللہ عباسی نے کہا: یہ سونے سے بھرا ہوا تھیلا قبول کریں-
امام اوزاعی نے کہا:
"مجھے مال و دولت کی کوئی ضرورت نہیں-"
امام اوزاعی کہتے ہیں کہ ایک وزیر نے مجھے آنکھ سے اشارہ کیا کہ میں سونے سے بھرا ہوا وہ تھیلا قبول کروں- چنانچہ امام اوزاعی نے تھیلا لےلیا اور اسے فوجیوں میں تقسیم کردیا اور خالی تھیلا وہیں پھینک کر یہ پڑھتے ہوئے نکل گئے:
{حسبنا اللہ و نعم الوکیل}
" ہمیں اللہ کافی ہے اور وہ بہت اچھا کارساز ہے-"

اقتباس: سنہرے حروف
از: عبد المالک مجاہد

0 comments:

Post a Comment