اِک نظر میری طرف دیکھ، تیرا جاتا کیا ہے
میری رُسوائی میں تُو بھی ہے برابر کا شریک
میرے قِصّے، میرے یاروں کو سُناتا کیا ہے
پاس رہ کر بھی نہ پہچان سکا تُو مُجھ کو
دُور سے دیکھ کے اب ہاتھ ہلاتا کیا ہے
سفرِ شوق میں کیوں کانپتے ہیں پاؤں تیرے
دُور سے دیکھ کے اب ہاتھ اُٹھاتا کیا ہے
عُمر بھر اپنے گریباں سے اُلجھنے والے
تُو مُجھے میرے سائے سے ڈراتا کیا ہے
مر گئے پیاس کے مارے تو اُٹھا ابرِ کرم
بُجھ گئی بزم تو اب شمع جلاتا کیا ہے
میں تیرا کچھ بھی نہیں ہوں مگر اتنا تو بتا
دیکھ کر مُجھ کو تیرے ذہن میں آتا کیا ہے
0 comments:
Post a Comment