Saturday 23 March 2013

اسلام آباد کا جوگی

Posted by Unknown on 00:44 with No comments

پنڈورا کی جوگی بستی

راولپنڈی اور اسلام آباد کو الگ کرنے والے خط کے عین اوپر واقع پنڈورا چونگی کے عقب میں ایک جھونپڑ بستی ہے جس میں رہنے والے خود کو جوگی اور سنیاسی کہتے ہیں- 

ابن انشاء کے مطابق وحشی کو سکون اور جوگی کو نگری سے کوئی مطلب نہیں ہوتا، تو پھر یہ کیسے سنیاسی ہیں جو شہر کے وسط میں جا بیٹھے ہیں؟ دوپہر کے وقت اس بستی میں بھاگتے دوڑتے ننگ دھڑنگ بچوں اور کپڑے دھوتے ہوئے آپس میں لڑتی ہوئی عورتوں کے درمیان نظر آنے والے واحد مرد شوکت سے میں نے پوچھا کہ اصلی جوگی کو نقلی سے فرق کیسے کیا جا سکتا ہے؟

’جوگی کبھی لالچی نہیں ہوتا‘ اس نے بتایا- ’وہ سانپ پکڑ کر بیچتا ہے، اس کے کاٹے کا توڑ کرتا ہے، جڑی بوٹیوں سے دوا بناتا ہے اور اللہ کی رضا کے لۓ لوگوں کا علاج کرتا ہے- اکثر وہ بغیر معاوضے کے صرف اللہ کو خوش کرنے کے لۓ اپنے علم کو لوگوں کی بھلائی کے لۓ بانٹتا ہے یا جتنا کوئی خوشی سے دے لے لیتا ہے‘-

شوکت کے والد چوہدری اس جوگی قبیلے کے نمبردار ہیں جو ان کی نسل 
سے پہلے جہلم کے قریب تِلہ جوگیاں والا میں آباد تھا۔ پھر حکومت نے اس جگہ چھاؤنی قائم کرنے کا فیصلہ کیا اور اس قبیلے کے افراد کو ان کے آبائی مقام سے ہٹا کر پنجاب بھر میں پھیلا دیا۔ چوہدری اور ان کا خاندان سرگودھا شہر کے نزدیک لک موڑ میں جا آباد ہوا اور پھر اپنی خانہ بدوش طبیعت سے مجبور ہو کر پچیس تیس برس قبل اسلام آباد آ پہنچا جہاں اس قبیلے کے پانچ سو کے قریب افراد آج بھی غلاظت کے ڈھیر پر بنی جھگیوں میں رہ رہے ہیں-

ایک سو سے تھوڑی کم جھگیوں کی یہ بستی کسی صورت دوسری غریب آْبادیوں سے مختلف نہیں سواۓ اس کے کہ اس بستی کے مکین آپس میں رشتہ دار ہیں، اور غیروں میں شادی نہیں کرتے- یہاں کوئی اسکول نہیں گیا اور نہ ہی آج بھی بچوں کو پڑھانے کا رواج ہے- البتہ دو مقامی مسجدوں کے مولوی حضرات نے بستی کے بچوں کو قرآن پڑھانے کا انتظام ضرور کر رکھا ہے-

شوکت ایک دلچسپ کردار ہے- اونچا لمبا اور صحتمند۔ دیکھنے میں وہ جوگی سے زیادہ مٹھائی فروش پہلوان لگتا ہے- اس کے لۓ صحافیوں سے ملنا یا اپنے فن کے بارے میں بات کرنا کوئی نئی بات نہیں- وہ باتیں بنانا جانتا ہے اور تعلقات کو استعمال کرنا بھی- وہ ایسے کئی رقعے اور کاروباری کارڈ دکھاتا ہے جو اعلیٰ پولیس افسروں اور مقامی سیاستدانوں نے اس کے ’نیک‘ چال چلن کے بارے میں اسے لکھ کر دئے ہیں- 

انہی میں وہ خط بھی شامل ہے جو سرگودھا کے ایک سیاستدان کے لیٹر ہیڈ پر چوہدری اور شوکت کے بارے میں لکھا گیا ہے: ’یہ شریف آدمی ہیں، براۓ مہربانی ان کا خیال رکھیں‘- سائیکل کے انتخابی نشان والے اسی سیاستدان کو ووٹ ڈالنے کے لۓ شوکت اپنے خاندان سمیت اکتوبر کے آغاز میں سرگودھا گیا تھا۔ اس سارے سفر اور قیام و طعام کے اخراجات بھی اسی سیاستدان نے اٹھاۓ تھے-

اسلام آباد کی اس بے نام بستی کے ہر مرد کے پاس ایک گٹھڑی ہے
جس میں ہڈیاں، جڑی بوٹیاں، مختلف رنگوں کے سفوف، نگینے، پٹاریوں میں بند سانپ اور ایسی کئی اشیاء ہیں جن کے خواص سن کر اچھے اچھوں کا ہاتھ جیب میں چلا جاتا ہے- عورت کا دل نرم کرنے کا سفوف، دشمن کو زیر کرنے کا نسخہ، جسمانی عارضوں کا علاج، معشوق کو قدموں میں گرانے کا فارمولا، غرض ہر وہ خواہش جس کا پورا ہونا ناممکن نظر آتا ہو، اس گٹھڑی سے نکلی ہوئی کسی چیز کے استعمال سے پوری ہو جاتی ہے-

شوکت بھی اپنی گٹھڑی کھولتا ہے اور پہلے ایک شیش ناگ نکالتا ہے- وہ ناگ کے انسان بننے کی کہانیاں سنانا چاہتا ہے لیکن میری عدم دلچسپی بھانپ کر زعفرانی رنگ کے سفوف میں رکھی گیدڑ سنگھی اور منکنا نکالتا ہے جو اس کی ’قیمتی ترین متاع‘ ہے- شوکت کے مطابق جوگیوں میں جب لڑکی بیاہی جاتی ہے تو اسے جہیز میں یہ دو چیزیں ضرور دی جاتی ہیں- منکنا سانپ کے حلق سے نکلتا ہے اور زہر چوسنے کا کام کرتا ہے- گیدڑ سنگھی گیدڑ کے ماتھے پر بننے والا ایک ابھار ہے جس پر لمبے لمبے بال اگتے ہیں-

لیکن صرف اتنا بتانے سے ان اشیاء کی پر اسراریت نہیں کھلتی- شوکت ہی کی زبانی سنئے: ’چالیس دن تک رات بارہ بجے چالیس مرتبہ یہ ورد پڑھیں ’ارد وِرد گِرد جس کو پکاراں وہ میرے پاس‘ اور گیدڑ سنگھی پر پھونک دیں- چلہ ختم ہونے کے بعد گیارہ روپے کی نیاز دیں اور بس، ہر رکا ہوا کام ٹھیک ہو جاۓ گا، ہر مشکل آسان ہو جاۓ گی اور ہر انسان اور جانور آپ کو فائدہ ہی پہنچاۓ گا نقصان نہیں‘-

اسی طرح منکنا بھی زہر چوسنے کے علاوہ من کی 
مرادیں بھی پوری کرتا ہے- لیکن پہلے شوکت یہ بتاتا ہے کہ منکنا آتا کہاں سے ہے- ’ نر اور مادہ سانپ جب پہلی مرتبہ ملاپ کرتے ہیں تو اپنے حلق سے منکنا اگل دیتے ہیں- نر کا منکنا بیضوی ہوتا ہے جبکہ مادہ کا منکنا گول ہوتا ہے اور زیادہ پر تاثیر- کسی شخص سے کوئی کام ہو یا اسے دل کے قریب لانا ہو تو اس کے پاؤں تلے کی مٹی لے کر ایک ڈبیا میں منکنے کے ساتھ رکھ دیں اور پھر اس شخص کا دل بدلتے ہوۓ دیکھیں‘-

عجیب بات یہ ہے کہ خود جوگی لوگ بھی گیدڑ سنگھی اور منکنے کے بارے میں مختلف اور متضاد باتیں بتاتے ہیں- ان تفصیلات کا انحصار سننے والے کی ظاہری حیثیت پر ہوتا ہے- کس طرح کا انسان کس قسم کے جواب سے مطمئن ہو گا یہ بات گلی گلی گھومنے والے جوگیوں سے زیادہ کون جان سکتا ہے! لیکن پڑھے لکھے لوگ عام طور پر ان چیزوں کو ڈھونگ اور فریب سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے-

ملتان میں ماہر آثار قدیمہ اور لوک روایات میں دلچسپی رکھنے والے زبیر غوری کا کہنا ہے کہ گیدڑ سنگھی کا گیدڑ سے کوئی تعلق نہیں- عام طور پر یہ صرف بکری کے بالوں کا گچھا ہوتا ہے جسے ایک خاص کیمیائی محلول میں ڈالا جاتا ہے جس کا ایک اثر یہ ہوتا ہے کہ اس کو گردن پر پھیرنے سے شدید خارش ہوتی ہے- اسی طرح منکنے کے بارے میں بھی سانپوں سے متعلق روائیتوں کو خود ساختہ کہانیوں سے زیادہ کچھ نہیں سمجھا جاتا-

جوگیوں کا قبیلہ اسلام آباد کے آس پاس کی پہاڑیوں اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں جڑی بوٹیاں بھی اکٹھا کرتا ہے جن سے دوائیں تیار کی جاتی ہیں- 

نواز بابا جوگیوں کی اس جھونپڑ بستی میں 
نواز سب سے معمر شخص ہے اور دواؤں کی تیاری کے حوالے سے مشہور ہے- وہ اپنے باقی ساتھیوں کی طرح گلی گلی نہیں گھومتا بلکہ اپنی جھونپڑی میں ہی رہتا ہے جہاں ضرورتمند اسے ڈھونڈتے ہوۓ پہنچ جاتے ہیں- وہ ان کی تکلیف کا حال سنتا ہے، نبض دیکھتا ہے، کچھ سوال کرتا ہے اور پھر دوا بنا کر دیتا ہے-

لیکن شوکت کی چھ شیشیوں میں ہر مرض کا ہی علاج موجود ہے- مردانہ کمزوری، احتلام، جوڑوں کا درد، دانت کا درد، ذیابطیس، بواسیر، کھانسی، بخار، لیکوریا وغیرہ وغیر- یہ لیکوریا کیا ہوتا ہے؟ میں نے پوچھا- شوکت نے معنی خیز نظروں سے مجھے دیکھتے ہوۓ جواب دیا: ’جو دھی بھین (بیٹی بہن) کو ہو جاتا ہے‘-

چلتے ہوۓ میں نے شوکت کو کچھ پیسے دئے جنہیں لینے کے بعد اس نے مزید ایک ہزار کا تقاضا کیا- جب میں نے اس پر توجہ نہیں دی تو اس نے مجھ سے دو منٹ بیٹھنے کو کہا- میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا، مجھ سے ایک ہزار روپے کا نوٹ لے کر اسے چار چھ تہیں دے کر میری ہتھیلی پر ایک منکنے کے ساتھ رکھا اور پھر کچھ پڑھ کر پھونک ماری اور ایک مریل سا سانپ میرے ہاتھ پر رکھ کر اسے میرے دوسرے ہاتھ سے ڈھک دیا-

میری ساری مرادیں پوری کروانے کے وعدے کے ساتھ اس نے کچھ دیگیں نیاز دینے کی بات کی اور جوگیانہ رعب کے ساتھ مجھ سے پوچھا کہ بولو ہاں یا نہ؟ میری نظریں سارا وقت اس کے ہاتھوں پر تھیں- مریل سانپ سے تو مجھے کوئی خطرہ محسوس نہیں ہوا لیکن یہ فکر ضرور تھی کہ اگر اس پہلوان نما جوگی نے کسی کرتب سے یہ نوٹ غائب کر دیا تو میں بی بی سی کے حساب کتاب والوں کو کیسے سمجھا پاؤں گا ؟

میں نے اپنا ہاتھ چھڑا کر سانپ کو دم سے پکڑ کر اس کے حوالے کیا، ہزار کا نوٹ اپنی جیب میں رکھا اور اسے اسی کی بتائی ہوئی اصلی جوگی کی تعریف یاد دلائی- اس نے اپنا ہاتھ ایک دم اپنے ماتھے پر مارا اور کچھ دیر بڑبڑاتا رہا- پھر وہ مجھ سے مخاطب ہوا: ’قبولیت کا ٹیم تھا، آپ کی جندگی بن سکتی تھی لیکن خیر نصیب اپنا اپنا‘-

0 comments:

Post a Comment