Saturday 30 March 2013

بدھ کی شام کراچی آرٹس کونسل میں ایک ایسے شعری مجموعے کی تقریب رونمائی ہوئی جس میں شامل ہر نظم میں تین تین شاعروں نے مل کر حصہ لیا۔
’قہقہہ انسان نے ایجاد کیا‘ حسین عابد، سمعود قمر اور جاوید انور ہیں، اور اس سے پہلے سویڈن کے رہنے والے مسعود قمر کا مجموعہ ’سوکھی گھاس کا نظم پڑھنے سے انکار‘ کے نام سے، حسین عابد (جرمنی) کے مجموعے ’اتری کونجیں‘ اور ’دھندلائے دن کی جدت‘ کے ناموں سے اور جاوید انور (آسٹریا) کے مجموعے ’شہر میں شام‘، ’اشکوں میں دھند‘، ’بھیڑیے سوئے نہیں‘ اور ’برزح کے پھول‘ کے ناموں سے آ چکے ہیں۔
تقریب رونمائی کی صدارت تنویر انجم نے کی جو شاعری کے چار اور غزلوں کے ایک مجموعے کی خالق ہیں۔ وہ عالمی ادب سے اردو میں تراجم بھی کرتی ہیں۔ انھوں نے کراچی سے انگریزی ادب پڑھنے کے بعد امریکہ سے ڈاکٹریٹ کی اور تدریس سے وابستہ ہیں۔ ان کا نیا شعری مجموعہ ’نئے نام کی محبت‘ حال ہی میں شائع ہوا ہے۔
تنویر کا کہنا تھا کہ تین لوگوں کا مل کر شعر کہنا ان معنوں میں نیا واقعہ ہے کہ تین لوگوں یہ کام طے کر کے کیا ہے، ورنہ تو اردو ہی میں نہیں دنیا کی کم و بیش ہر زبان کا فوک ادب اور شاعری انفرادی نہیں اجتماعی تخلیق ہوتے ہیں۔
ان کہنا تھا کہ یہ کوشش فرد اور اس کی انفرادیت پر سوال اٹھاتی ہے اور یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ کیا اشتراک کی اس حد کو چھوا جا سکتا ہے جہاں کوئی ایک، کسی دوسرے کی تخلیق میں شریک ہو سکے۔ لیکن یہاں تو ایک دوسرے میں دوسرا، تیسرے میں اور تیسرا، پہلے میں اس طرح شریک ہیں کہ انھیں الگ نہیں کیا جا سکتا۔
تنویر کا کہنا تھا کہ مجموعے میں شامل نظموں میں تلازماتی تسلسل کو محسوس کیا جا سکتا ہے اور یہی ان نظموں کی ساخت بھی ہے جس کے ذریعے آپ چاہیں تو نظم میں داخل ہو سکتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ان نظموں سے استہزا کی کیفیت کا اظہار ہوتا ہے اور یہ استہزا صرف رسم و رواج کے خلاف نہیں خود ان کے خلاف بھی ہے جو ان نظموں کو لکھ رہے ہیں۔
تقریب کی مہمانِ خصوصی شاعرہ، کہانی کار اور ناول نگار عذرا عباس نے ان دنوں کو یاد کیا جب تیس سال قبل نثری شاعری نے کراچی سے ایک تحریک کی صورت ابتدا کی تھی۔

ان دنوں کی یاد

تقریب کی مہمانِ خصوصی شاعرہ، کہانی کار اور ناول نگار عذرا عباس نے ان دنوں کو یاد کیا جب تیس سال قبل نثری شاعری نے کراچی سے ایک تحریک کی صورت ابتدا کی تھی۔
انھوں نے بتایا کہ تب قمر جمیل کے گرد نوجوانوں کا ایک گروہ تھا۔ کچھ سینیئر بھی تھے لیکن نوجوانوں کے لیے قمر جمیل زیادہ پُر کشش تھے، وہ شاعری کا الاؤ جلائے بیٹھے تھے اور جو بھی آتا وہ اس الاؤ سے اس کے اندر اس کی اپنی آگ کو روشن کر دیتے۔
عذرا نے بتایا کہ وہ بھی ان نوجوانوں میں شامل تھیں۔ تب قمر جمیل کو شاعری کے لیے اپنے تصورات کی وجہ سے کیا کیا سہنا اور سننا پڑا اس کا آج تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن آج ان کے جلائے ہوئے الاؤ کی روشنی اور حرارت ہر نثری نظم میں محسوس کی جا سکتی ہے۔
انھوں نے بتایا کہ تب قمر جمیل کے گرد نوجوانوں کا ایک گروہ تھا۔ کچھ سینیئر بھی تھے لیکن نوجوانوں کے لیے قمر جمیل زیادہ پُر کشش تھے، وہ شاعری کا الاؤ جلائے بیٹھے تھے اور جو بھی آتا وہ اس الاؤ سے اس کے اندر اس کی اپنی آگ کو روشن کر دیتے۔
عذرا نے بتایا کہ وہ بھی ان نوجوانوں میں شامل تھیں۔ تب قمر جمیل کو شاعری کے لیے اپنے تصورات کی وجہ سے کیا کیا سہنا اور سننا پڑا اس کا آج تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن آج ان کے جلائے ہوئے الاؤ کی روشنی اور حرارت ہر نثری نظم میں محسوس کی جا سکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ انفرادی طور پر خود شعر کہنے میں کوئی مشکل نہیں لیکن دوسروں کو یہ احساس دلانا کہ شاعر ہونا اور شاعری کرنا اور وہ بھی ایک ایسی فارم میں جسے قبول عام کی بجائے شدید مخالفت کا سامنا ہو اتنا آسان نہیں جتنا سننے میں محسوس ہوتا ہے۔ لیکن آج یہ تمام باتیں جو کسی تاریخ میں نہیں ہیں ہر اُس کے لیے شاعری کا وہ راستہ کھول چکی جس کے لیے کسی کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کی ضرورت نہیں۔
عذرا نے بتایا کہ وہ اس کتاب میں شامل اکثر نظموں کو شائع ہونے سے پہلے پڑھ چکی ہیں اور مسعود قمر انھیں یہ نظمیں تب تب بھیجتے رہتے تھے جب جب یہ لکھی جاتی تھیں۔ اس لیے انھوں نے وہ نظمیں بھی پڑھی ہیں جو اس کتاب میں شامل نہیں ہیں اور ان کے لیے یہ بات اہم نہیں کہ انھیں کسی ایک نے لکھا ہے، تین نے لکھا ہے یا تین ہزار نے۔ آپ یہ نظمیں پڑھیں تو آپ کے لیے یہ بات اہم نہیں رہے گی کہ انھیں ایک نے یا کئی ایک نے مل کر لکھا ہے۔
پروفیسر سحر انصاری کا کہنا تھا کہ ان کے بارے میں بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ نثری شاعری کے حق میں نہیں ہیں، جو درست نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جب شاعری کا ترجمہ کیا جاتا ہے تو جو ترجمہ نثر میں کیا جاتا ہے وہ اصل سے قدرے قریب لے جاتا ہے اور جب ترجمے منظوم کیے جاتے ہیں ان پر رابرٹ فراسٹ کی یہ بات زیادہ صادق آتی ہے کہ شاعری کا ترجمہ کرنے کے بعد جو چیز ترجمے سے باہر رہ جاتی ہے وہ شاعری ہوتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس مجموعے میں موجود شاعری میں شاعروں کا انداز روایت سے ہٹا ہوا ہے۔

جذبوں سے زیادہ دلچسپی

نوجوان اور دو شعری مجموعوں کے خالق کاشف رضا کا کہنا تھا کہ وہ موجودہ شعری مجموعے کی بجائے مسعود قمر کے مجموعے ’سوکھی گھاس کا نظم پڑھنے سے انکار‘ پر بات کریں گے۔
انھوں نے کہ مسعود قمر زندگی کو ایک رخ اور ایک ترتیب میں لانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ انھیں اپنے جذبوں سے زیادہ دلچسپی ہے اور ان کے ہاں زندگی کو بے دریغ صرف کرنے کا روّیہ محسوس ہوتا ہے۔
ڈاکٹر عالیہ امام نے اپنے ڈاکٹر ہونے کی توضیح کرنے کے بعد کہا کہ تجربہ برائے تجربہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا، تجربے میں فکر بھی شامل کر دی جائے تو بات کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ تین شاعروں کا مل کر لکھنے کی بات، سننے میں ہی عجیب سے لگتی ہے۔ لیکن جب مقصد ایک ہوتا ہے تو الگ الگ ہونے کا فرق مٹ جاتا ہے اور یوں بھی سفر میں سفر نہیں سمت اہم ہوتی ہے۔
نوجوان اور دو شعری مجموعوں کے خالق کاشف رضا کا کہنا تھا کہ وہ موجودہ شعری مجموعے کی بجائے مسعود قمر کے مجموعے ’سوکھی گھاس کا نظم پڑھنے سے انکار‘ پر بات کریں گے۔
انھوں نے کہ مسعود قمر زندگی کو ایک رخ اور ایک ترتیب میں لانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ انھیں اپنے جذبوں سے زیادہ دلچسپی ہے اور ان کے ہاں زندگی کو بے دریغ صرف کرنے کا روّیہ محسوس ہوتا ہے۔
توقیر چغتائی کا کہنا تھا کہ اس مجموعے میں شامل نظموں سے انسانوں کی ٹوٹ پھوٹ کو ہم تک پہنچایا گیا ہے اور کچھ نظمیں ضرور ایسی ہیں جن میں کچھ شعری ٹکڑی مل جاتے ہیں۔
نصیر سومرو کا کہنا تھا کہ یہ شاعری تضادات سے آراستہ ہے۔ اگرچہ یہ تین لوگوں کی شاعری ہے لیکن اسلوب اور بیان ایک سا ہے اور وحدتِ فکر ہے۔ نظموں سے وجودیت اور ابہام کا ادراک ہوتا ہے۔
تقریب کی نظامت عزل کے سینیئر اور معروف شاعر صابر ظفر نے کی۔

0 comments:

Post a Comment