پردیسی لوگ
سالوں کے سال گزر جاتے ہیں اور ہم پردیسی
یہی سمجھتے رہتے ہیں کہ ہماری یہ غریب الوطنی عارضی ہے اور ہم جلد ہی
اپنے اس وطن کو لوٹ جائیں گے جہاں ہم نے اپنا سہانا بچپن، چلبلا لڑکپن یا
بھرپور جوانی کے دن گزارے تھے، گویا یہ پردیس میں کٹا ہوا زمانہ تو کسی
گنتی میں ہی نہیں ہے۔
وطن کی محبت اچھی چیز ہے مگر اپنے آپ کو دھوکا اور اپنے آپ سے جھوٹ بولنے کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ کتنے ایسے لوگ ہیں جو وطن کی محبت دل میں دبائے جوانی سے بڑھاپے کی حدوں میں داخل ہو گئے مگر وطن واپسی کی راہ نہ پا سکے۔ کتنے پردیس کی سختیاں جھیلتے رہے، زندگی کی مسرتوں اور راحتوں کو اپنے آپ پر حرام کرتے رہے، زندگی کی لذتوں سے محروم رہتے ہوئے درہم و دینار جمع کرتے رہے کہ وطن واپس جا کر اپنے اہل و عیال کے ساتھ مل کر ان پیسوں کو خرچ کریں گے مگر پردیس کی عمر تھی کہ بڑھتی ہی رہی انتظار لمبا ہوتا رہا۔ اہداف دور سے دور ہوتے رہے، فرمائشیں بڑھتی رہیں، واپس ہوئے بھی تو اس وقت جب گزرے وقت کا مداوا نا ہو سکتا تھا۔ بلکہ کئی ایسی مثالیں بھی ہیں کہ جوانی اور صحت گزار کر گھروں کو لوٹے بھی تو کھانستے ، تڑپتے اور سسکتے بیماریوں کے ساتھ۔ بلکہ کچھ تو ایسے بھی لوٹے کہ زندگانی کے دن ہی باقی گنے چنے رہتے تھے اور آتے ہی اگلے جہان کو سدھار گئے۔
میں بذات خود کئی ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو اپنی مادی حالت کو سدھارنے کیلئے پردیس میں برسوں انتہائی برے حالات میں رہتے رہے۔ پیسہ کماتے تھے مگر اسے ہاتھ نہیں لگاتے تھے کہ یہ پیسہ تو وطن واپس جا کر خرچ کرنے کیلئے تھا۔ حیرت ہوتی تھی ان کی حالت دیکھ کرکہ وہ کیسے ان برے حالات میں رہتے تھے۔ ٹوٹے پھوٹے گندے گھروں میں رہائش پذیر ان لوگوں سے پوچھا جائے کہ تم لوگ سلیقے کا فرنیچر ہی ڈلوا لو مگر ان لوگوں کا کہنا تھا کہ ہم پردیسی ہیں اور یہ ایک پرایا ملک ہے، ہم کیوں اپنی کمائی اور اپنا پیسہ یہاں خرچ کریں اور ضائع کریں۔ ارے بھائی تم کیا سمجھتے ہو کہ وقت تھم چکا ہے اور جب تم واپس جاؤ گے تو پھر وہیں سے شروع ہو جائے گا جہاں سے چھوڑ گئے تھے؟
میں ایک ایسے دوست کو بھی جانتا ہوں جو زندگی کے پچیس سال کولہو کے بیل کی طرح کماتا رہا۔ دل کا مریض، شوگر اور ہائی بلڈ پریشر کے ساتھ کچھ مالی حقوق لیکر واپس لوٹا تو چوتھے دن فوت ہو گیا۔ مل بیٹھ کر کھانے، بچوں کو بیاہنے، اچھا گھر بنانے اور چھوٹا سا کاروبار شروع کرنے کے سارے خواب دھرے کے دھرے رہ گئے، کیا فائدہ ہوا؟
میں جب پردیسیوں کا سوچتا ہوں تو ایسے لگتا ہے جیسے یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی خوشیوں کو آنے والے کل پر ملتوی کرتے رہیں گے گویا کل ان کی توقعات کے مطابق ہی ہوگا۔
وطن کی محبت اچھی چیز ہے مگر اپنے آپ کو دھوکا اور اپنے آپ سے جھوٹ بولنے کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ کتنے ایسے لوگ ہیں جو وطن کی محبت دل میں دبائے جوانی سے بڑھاپے کی حدوں میں داخل ہو گئے مگر وطن واپسی کی راہ نہ پا سکے۔ کتنے پردیس کی سختیاں جھیلتے رہے، زندگی کی مسرتوں اور راحتوں کو اپنے آپ پر حرام کرتے رہے، زندگی کی لذتوں سے محروم رہتے ہوئے درہم و دینار جمع کرتے رہے کہ وطن واپس جا کر اپنے اہل و عیال کے ساتھ مل کر ان پیسوں کو خرچ کریں گے مگر پردیس کی عمر تھی کہ بڑھتی ہی رہی انتظار لمبا ہوتا رہا۔ اہداف دور سے دور ہوتے رہے، فرمائشیں بڑھتی رہیں، واپس ہوئے بھی تو اس وقت جب گزرے وقت کا مداوا نا ہو سکتا تھا۔ بلکہ کئی ایسی مثالیں بھی ہیں کہ جوانی اور صحت گزار کر گھروں کو لوٹے بھی تو کھانستے ، تڑپتے اور سسکتے بیماریوں کے ساتھ۔ بلکہ کچھ تو ایسے بھی لوٹے کہ زندگانی کے دن ہی باقی گنے چنے رہتے تھے اور آتے ہی اگلے جہان کو سدھار گئے۔
میں بذات خود کئی ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو اپنی مادی حالت کو سدھارنے کیلئے پردیس میں برسوں انتہائی برے حالات میں رہتے رہے۔ پیسہ کماتے تھے مگر اسے ہاتھ نہیں لگاتے تھے کہ یہ پیسہ تو وطن واپس جا کر خرچ کرنے کیلئے تھا۔ حیرت ہوتی تھی ان کی حالت دیکھ کرکہ وہ کیسے ان برے حالات میں رہتے تھے۔ ٹوٹے پھوٹے گندے گھروں میں رہائش پذیر ان لوگوں سے پوچھا جائے کہ تم لوگ سلیقے کا فرنیچر ہی ڈلوا لو مگر ان لوگوں کا کہنا تھا کہ ہم پردیسی ہیں اور یہ ایک پرایا ملک ہے، ہم کیوں اپنی کمائی اور اپنا پیسہ یہاں خرچ کریں اور ضائع کریں۔ ارے بھائی تم کیا سمجھتے ہو کہ وقت تھم چکا ہے اور جب تم واپس جاؤ گے تو پھر وہیں سے شروع ہو جائے گا جہاں سے چھوڑ گئے تھے؟
میں ایک ایسے دوست کو بھی جانتا ہوں جو زندگی کے پچیس سال کولہو کے بیل کی طرح کماتا رہا۔ دل کا مریض، شوگر اور ہائی بلڈ پریشر کے ساتھ کچھ مالی حقوق لیکر واپس لوٹا تو چوتھے دن فوت ہو گیا۔ مل بیٹھ کر کھانے، بچوں کو بیاہنے، اچھا گھر بنانے اور چھوٹا سا کاروبار شروع کرنے کے سارے خواب دھرے کے دھرے رہ گئے، کیا فائدہ ہوا؟
میں جب پردیسیوں کا سوچتا ہوں تو ایسے لگتا ہے جیسے یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی خوشیوں کو آنے والے کل پر ملتوی کرتے رہیں گے گویا کل ان کی توقعات کے مطابق ہی ہوگا۔
0 comments:
Post a Comment