Saturday 9 March 2013


خلیل ایک منفرد شخصیت کا مالک خوبرو نوجوان، جس کی صلاحیتوں پر کسی کو شک نہیں، مگراپنی اس خامی کہ کسی کام سے جلدی اُکتا جانا، تیس سال کا ہو جانے کے باوجود بھی زندگی کی حقیقی کامیابیوں سے کہیں دور تھا۔ تعلیمی میدان میں ایک کو چھوڑکر دوسرے علم کے پیچھے بھاگتا رہا اور اب ملازمتوں کا بھی یہی حال کہ کہیں ٹک کر کام نہیں کر پا رہا تھا۔ شادی کے نام سے اُس کا بدکنا محض اسی بناء پر تھا کہ وہ ابھی تک کسی ملازمت کو مستقل اپنانے کیلئے خود کو ذہنی طور پر تیار ہی نہیں کر پا رہا تھا۔
خلیل کے ماں باپ اپنے بیٹے کی اس چلبلی طبیعت سے خوب واقف ہر وقت اُس کیلئے پریشان رہتے تھے۔ ایک دن اُس کے باپ نے اُسے صبح صبح فون کیا کہ آج ہم تیرے شہر میں آ رہے ہیں اور وہاں کے مشہور ریستوران میں تین بجے اکھٹے دوپہر کا کھانا کھائیں گے۔
خلیل اس شہر میں پچھلے چند ماہ سے رہ رہا تھا، اس دوران اُس کی والدین سے ملاقات بھی نہیں ہوئی تھی۔ والدین سے ملنے کی خوشی میں وقت سے پہلے ہی مطلوبہ ریستوران چلا گیا اور باہر کا منظر خوبصورت دکھائی دینے والی ایک میز پر براجمان ہو گیا۔ بیرے کو اُس نے بتا دیا کہ وہ اپنے والدین کا انتظار کر رہا ہے اور اُن کے آنے پر کھانا طلب کرے گا۔
تین بجے خلیل نے اپنے والد کو فون کر کے پوچھا کہ آپ ابھی تک پہنچے نہیں تو اُس نے جواب دیا وہ راستے میں ہیں اور ابھی پہنچا ہی چاہتے ہیں۔
ساڑھے تین بجے ایک بار پھر خلیل نے فون کر کے والد سے تصدیق کی کہ وہ راستے میں ہی ہیں ناں؟
چار بجے خلیل نے ایک بار پھر اپنے والد کو فون کر کے خیریت پوچھی تو اُس نے کہا؛ میں نے کہہ دیا ہے ناں کہ میں اور تیری ماں ہم دونوں راستے میں ہیں اور آ ہی رہے ہیں۔
انتظار کی کوفت میں مبتلا خلیل نے پانچ بجے باپ کی بجائے اپنی ماں کو فون کرکے پوچھا تاکہ صحیح صورتحال کی سمجھ آئے مگر اُس کی ماں نے بھی وہی جواب دیا جو اُس کے باپ نے دیا تھا کہ ہم راستے میں ہیں اور بس پہنچا ہی چاہتے ہیں۔
انتظار کی کوفت اور اذیت میں مبتلا خلیل کی حالت دیدنی تھی۔ ناں وہ ریستوران چھوڑ کر کہیں جا سکتا تھا اور ناں ہی فون پر چیخ چلا کر اپنی کوفت کا اظہار کر سکتا تھا، کیونکہ یہ کوئی اور نہیں اُس کے ماں باپ تھے۔ اپنی طبیعت کے برعکس زہر کا کڑوا گھونٹ بھرے وہیں مرتا کیا کرتا کے مصداق بیٹھا انتظار کرتا رہا۔
اسی طرح چھ بجے تو اُس کے ماں باپ ریستوران میں داخل ہوتے دکھائی دیئے۔ خلیل نے اپنی ناگواری کو دبائے سرد مزاجی سے کھڑے ہو کر ماں باپ سے سلام دُعا لی اور چھوٹتے ہی پوچھا؛ کیا ہوگیا تھا آپ لوگوں کے ساتھ؟ کیوں اتنی دیر لگا دی؟
اُس کے باپ نے نہایت دھیمے سے لہجے میں کہا تیری وجہ سے ہمیں یہ ساری دیر ہوئی ہے۔
میری وجہ سے؟ خلیل نے اپنی حیرت کو دباتے ہوئے باپ سے پوچھا۔
باپ نے پھر سے دھیمے لہجے میں خلیل کو اپنا وہی جواب دیا ہاں تیری وجہ سے دیر ہوئی ہے یہ ساری۔
اس بار خلیل کی ماں نے دخل اندازی کرتے ہوئے کہا؛ چلو بیٹا کیا ہو گیا اب، آخر ہم پہنچ ہی گئے ہیں ناں۔ ہو سکتا ہے تم نے کوئی اچھا سبق ہی سیکھا ہو آج کی اس ملاقات سے۔
خلیل نے پوچھا امی جی، اس کوفت سے جو میں نے اُٹھائی ہے بھلا کونسا اچھا سبق نکلتا ہے مجھے بھی تو بتا ئیے؟
خلیل کے والد نے کہا؛ بیٹے تم چاہتے ہوئے بھی آج ریستوران کو چھوڑ کر نا جا سکے کیونکہ تم جن لوگوں کے انتظار میں یہاں بیٹھے رہے وہ کوئی اور نہیں تمہارے والدین تھے۔، تم بار بار اپنی جھنجھلاہٹ کو دبا کر ہمیں فون کرتے رہے، چاہنے کے باوجود بھی اپنی آواز کو اونچا نا کر سکے کہ سامنے کوئی اور نہیں تمہارے والدین تھے۔ اگر تمہارا آج کا مقصد یہاں بیٹھ کر اپنے پیارے والدین سے ملاقات کرنا تھی اور اُن کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانے کی سعادت حاصل کرنا تھی تو تمہیں انتظار کی کوفت تو اُٹھانا پڑی مگر تم اپنے مقصد میں کامیاب رہے ہو۔
خلیل جو ابھی تک اپنے غصے اُکتاہٹ اور جھنجھلاہٹ کو دبائے ہوئے تھا اس بات کا مطلب نا سمجھ سکا اور پوچھ ہی لیا کہ ابا جی مجھے آپ کی بات کچھ سمجھ نہیں آئی۔
خلیل کے والد پھر گویا ہوئے؛ بیٹے تمہارے اندر زندگی کے ہر شعبہ میں کامیاب ہونے کی پوری صلاحیتیں ہیں، مگر ہر کوشش کے نتائج بر آنے تک صبر کے ساتھ ایک انتظار کی ضرورت ہوتی ہے جو تمہارے اندر نہیں ہے۔ صبر ایک تکلیف دہ مرحلہ ضرور ہوتا ہے مگر اس کے نتائج میٹھے پھلوں کی طرح ہوتے ہیں۔ اپنے خوابوں کی تعبیر کیلئے اس طرح صبر کے ساتھ انتظار کرو جس طرح تم نے آج اپنے والدین کے خیریت سے پہنچ جانے کا کیا ہے۔ آج تم چاہتے ہوئے بھی اپنے منہ سے اُف نا کر سکے کہ معاملہ والدین کا تھا جن کو نا چھوڑا جا سکتا تھا اور نا کچھ بولا جا سکتا تھا۔ آج اگر تُم نے انتظار کیا ہے تو اپنی مراد بھی تو پائی ہے۔
آج پہلی بار تھا کہ خلیل سر جھکائے اپنے والدین کی باتیں اس توجہ سے سُن رہا تھا۔ اندر سے اُسکا دل اپنی اُن تمام ناکام کوششوں کیلئے دھاڑیں مار کر رو رہا تھا جن کے نتائج کا انتظار کیئے بغیر اپنی لااُبالی طبیعت کے ہاتھوں مجبور وہ ایک کو چھوڑ دوسری کے تعاقب میں بھاگتے بھاگتے تھک چکا تھا۔ کاش یہ سب کچھ وہ بہت پہلے سیکھ پاتا کہ خواب حقیقت بنتے دیکھنے کیلئے صبر کرنا سیکھنا پڑتا ہے۔

0 comments:

Post a Comment