حضرت صفوان بن امیہ کا قبول اسلام
صفوان بن امیہ بت پرست قریش کے
سرکردہ اور اسلام کے بدترین دشمن اپنے باپ امیہ بن خلف کی طرح پیغمبر علیہ
السلام کی عداوت اور مخالفت میں بڑے سخت تھے۔ صفوان ہی نے عمیر بن وہب کو
فخر دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل پر متعین کیا تھا۔ انہی نے حضرت زید
بن وثنہ رضی اللہ عنہ کو خرید کر قتل کرایا تھا۔
جب مکہ معظمہ فتح ہوا تو صفوان نے سمندر کی راہ سے بھاگ جانے کا ارادہ کیا۔ عمیر بن وہب رضی اللہ عنہ جو اس سے پیشتر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جاں ستانی کے قصد سے مدینہ گئے تھے اور حضور کے حلم و عفو کو دیکھ کر مسلمان ہوچکے تھے صفوان کے قریبی رشتہ دار تھے۔ انہوں نے سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گزارش کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! رئیس عرب صفوان بن امیہ مکہ سے جلاوطن ہوجاتا ہے اسے امان دیجیے۔‘آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمیر کی درخواست کو شرف قبولیت بخشا اور صفوان کو امان دی۔وہ یہ خوشخبری لے کر صفوان کے پاس پہنچے لیکن صفوان کو یقین نہ آیا اور بولے مجھے واپس جانے میں اپنی جان کا خوف ہے۔ عمیر رضی اللہ عنہ نے کہا صفوان! تمہیں محض اس بنا پر جانے میں تردو ہے کہ تم سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حلم و عفو کا حال نہیں جانتے۔ صفوان کو پھر بھی یقین نہ آیا اور کہا خدا کی قسم میں اس وقت تک واپس نہ جاوں گا جب تک مجھے معافی کی کوئی نشانی لاکر نہ دکھاوگے۔“
جب عمیر رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ صفوان کو کسی طرح تسکین نہیں ہوتی تو واپس آکر بارگاہ نبوت صلی اللہ علیہ وسلم میں پہنچے اور عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! صفوان کہتا ہے جب تک وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی نشانی نہ دیکھ لے آنے کی جرات نہیں کریگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ردائے مبارک عمیر رضی اللہ عنہ کو مرحمت فرمائی۔ عمیر رضی اللہ عنہ اسے لے کر صفوان کے پاس پہنچے۔ اب صفوان کو اطمینان ہوا اور عمیر رضی اللہ عنہ کے ساتھ دربار نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوئے اور عرض کی جناب والا! عمیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے امان دی ہے فرمایا سچ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حنین کے مال غنیمت میں سے سو اونٹ صفوان کو عطا فرمائے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر اور بھی بہت سے احسان کیے یہاں تک کہ وہ فتح مکہ کے تین چار مہینہ بعد مدینہ منورہ جاکر بطیب خاطر حلقہ اسلام میں داخل ہوگئے۔
جب مکہ معظمہ فتح ہوا تو صفوان نے سمندر کی راہ سے بھاگ جانے کا ارادہ کیا۔ عمیر بن وہب رضی اللہ عنہ جو اس سے پیشتر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جاں ستانی کے قصد سے مدینہ گئے تھے اور حضور کے حلم و عفو کو دیکھ کر مسلمان ہوچکے تھے صفوان کے قریبی رشتہ دار تھے۔ انہوں نے سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گزارش کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! رئیس عرب صفوان بن امیہ مکہ سے جلاوطن ہوجاتا ہے اسے امان دیجیے۔‘آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمیر کی درخواست کو شرف قبولیت بخشا اور صفوان کو امان دی۔وہ یہ خوشخبری لے کر صفوان کے پاس پہنچے لیکن صفوان کو یقین نہ آیا اور بولے مجھے واپس جانے میں اپنی جان کا خوف ہے۔ عمیر رضی اللہ عنہ نے کہا صفوان! تمہیں محض اس بنا پر جانے میں تردو ہے کہ تم سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حلم و عفو کا حال نہیں جانتے۔ صفوان کو پھر بھی یقین نہ آیا اور کہا خدا کی قسم میں اس وقت تک واپس نہ جاوں گا جب تک مجھے معافی کی کوئی نشانی لاکر نہ دکھاوگے۔“
جب عمیر رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ صفوان کو کسی طرح تسکین نہیں ہوتی تو واپس آکر بارگاہ نبوت صلی اللہ علیہ وسلم میں پہنچے اور عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! صفوان کہتا ہے جب تک وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی نشانی نہ دیکھ لے آنے کی جرات نہیں کریگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ردائے مبارک عمیر رضی اللہ عنہ کو مرحمت فرمائی۔ عمیر رضی اللہ عنہ اسے لے کر صفوان کے پاس پہنچے۔ اب صفوان کو اطمینان ہوا اور عمیر رضی اللہ عنہ کے ساتھ دربار نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوئے اور عرض کی جناب والا! عمیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے امان دی ہے فرمایا سچ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حنین کے مال غنیمت میں سے سو اونٹ صفوان کو عطا فرمائے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر اور بھی بہت سے احسان کیے یہاں تک کہ وہ فتح مکہ کے تین چار مہینہ بعد مدینہ منورہ جاکر بطیب خاطر حلقہ اسلام میں داخل ہوگئے۔
0 comments:
Post a Comment