Monday 11 March 2013

 مدینے کا سفر ہے اور میں نمدیدہ نمدیدہ

مدینے کا سفر ہے اور میں نمدیدہ نمدیدہ 
جبیں افسردہ افسردہ قدم لغزیدہ لغزیدہ

چلا ہوں ایک مجرم کی طرح میں جانب طیبہ
نظر شرمندہ شرمندہ بدن لرزیدہ لرزیدہ

کسی کے ہاتھ نے مجھ کو سہارا دے دیا ورنہ 
کہاں میں اور کہاں یہ راستے پیچیدہ پیچیدہ

کہاں میں اور کہاں اس روزۂ اقدس کا نظارہ 
نظر اس سمت اٹھتی ہے مگر دزدیدہ دزدیدہ

غلامان محمد دور سے پہچانے جاتے ہیں 
دل گرویدہ گرویدہ سر شوریدہ شوریدہ

مدینے جا کے ہم سمجھے تقدس کس کو کہتے ہیں
ہوا پاکیزہ پاکیزہ فضا سنجیدہ سنجیدہ

بصارت کھو گئی لیکن بصیرت تو سلامت ہے
مدینہ ہم نے دیکھا ہے مگر نادیدہ نادیدہ

وہی اقبالؔ جس کو ناز تھا کل خوش مزاجی پر
فراق طیبہ میں رہتا ہے اب رنجیدہ رنجیدہ

0 comments:

Post a Comment