مدینے کا سفر ہے اور میں نمدیدہ نمدیدہ
مدینے کا سفر ہے اور میں نمدیدہ نمدیدہ
جبیں افسردہ افسردہ قدم لغزیدہ لغزیدہ
چلا ہوں ایک مجرم کی طرح میں جانب طیبہ
نظر شرمندہ شرمندہ بدن لرزیدہ لرزیدہ
کسی کے ہاتھ نے مجھ کو سہارا دے دیا ورنہ
کہاں میں اور کہاں یہ راستے پیچیدہ پیچیدہ
کہاں میں اور کہاں اس روزۂ اقدس کا نظارہ
نظر اس سمت اٹھتی ہے مگر دزدیدہ دزدیدہ
غلامان محمد دور سے پہچانے جاتے ہیں
دل گرویدہ گرویدہ سر شوریدہ شوریدہ
مدینے جا کے ہم سمجھے تقدس کس کو کہتے ہیں
ہوا پاکیزہ پاکیزہ فضا سنجیدہ سنجیدہ
بصارت کھو گئی لیکن بصیرت تو سلامت ہے
مدینہ ہم نے دیکھا ہے مگر نادیدہ نادیدہ
وہی اقبالؔ جس کو ناز تھا کل خوش مزاجی پر
فراق طیبہ میں رہتا ہے اب رنجیدہ رنجیدہ
0 comments:
Post a Comment