سلطان محمود غزنوی کی ولی اللہ سے ملاقات
سلطان محمود غزنوی اپنے پورے جا
و جلال کے ساتھ دارالحکومت میں دربار لگائے بیٹھا تھا۔ درباری نہایت ادب
سے دو رویہ کھڑے تھے۔ سامنے مرصع فرش پر اُمرائے سلطنت حاضر تھے۔ تصوف و
معرفت کے نکات پر گفتگو چل نکلی۔ اولیاء اللہ کی عظمت و شان کا تذکرہ ہوا
تو سلطان نے کہا:
’’اولیائے اللہ کے مراتب کا کیا کہنا! ان کی صحبت میں بیٹھ کر تو انسان کی کایا پلٹ جاتی ہے۔‘‘ یہ سن کر ایک امیر جس کا نام عبدالرحمان تھا، کھڑا ہوا اور نہایت ادب سے عرض کی:
اللہ سلطان کے اقبال کو دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی عطا فرمائے۔ خرقان میں حضرت شیخ ابوالحسن نامی ایک ایسے ولی اللہ موجود ہیں۔ غلام نے کئی بار ان کی زیارت سے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈا کیا۔ ان کا ایک عمل بھی سنت نبویﷺ سے ہٹا ہوا نہیں ۔ ’’تو ایسے ولی اللہ کی ہمیں بھی زیارت کرنی چاہیے۔‘‘ یہ کہہ کر سلطان نے حکم دیا کہ خرقان جانے کی تیاری کی جائے۔
چند روز بعد سلطان حزم و حشم کے ساتھ غزنی سے خرقان جا پہنچا۔
سلطان نےحضرت شیخ ابوالحسن کی زیارت کی اور کہا ’’میرے لیے دعائے خیر فرمائیے۔‘‘ حضرت شیخ نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اور کہا، ’’اے اللہ! سب مومنین اور مومنات کو بخش دے۔‘‘ سلطان نے کہا ’’میرے لیے خاص دعا فرمائیے۔‘‘ شیخ نے فرمایا: ’’اللہ تیری عاقبت محمود فرمائے۔‘‘ اس کے بعد سلطان نے اشرفیوں کی ایک تھیلی شیخ کے سامنے رکھی اور کہا، یہ نذر قبول فرمائیے۔
شیخ نے جو کی ایک روٹی سلطان کے سامنے رکھی اور فرمایا: ’’یہ تمھاری دعوت ہے اس کوتناول کرو۔‘‘
سلطان نے جوکی کی روٹی کھانا شروع کی لیکن پہلا ہی نوالہ حلق میں اٹک گیا۔ شیخ نے یہ حالت دیکھی تو پوچھا: ’’کیا نوالہ حلق میں اٹکتا ہے؟‘‘ سلطان نے اثبات میں جواب دیا تو شیخ نے فرمایا: ’’تو یہ اشرفیوں کی تھیلی بھی میرے حلق میں اٹک جائے گی۔ اس کو فوراً اٹھا لو، یہ اشرفیاں بادشاہوں کی خوراک ہیں۔ فقیر کے لیے جوکی کی روٹی نعمتِ عظمیٰ ہے۔‘‘
سلطان نے اشرفیاں قبول کرنے پر اصرار کیا تو فرمایا: ’’یاد رکھ! ان اشرفیوں پر نہ تیرا حق ہے نہ میرا۔ ان کو قوم کی امانت سمجھو، اگرتم ان کو قوم کی مرضی کے خلاف تقسیم کرو گے تو قوم کے مال میں خیانت کروگے۔ اگر توان اشرفیوں کو خیرات ہی کرنا چاہتا ہے تو تیرے ملک میں بہت سے مساکین ہیں، جب تُو سو جاتا ہے تو وہ اس لیے جاگتے ہیں کہ ان کے پیٹ خالی ہوتے ہیں۔
تیرے ملک میں ایسے شریف اور سفید پوش بھی موجود ہیں جو بظاہر آسودہ حال نظر آتے ہیں لیکن عسرت اور ناداری نے ان کے سینوں کو چھلنی کر رکھا ہے۔ وہ اپنی خودداری قائم رکھنے کے لیے کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے۔ اگر تو ان کی خبر گیری نہیں کرے کا تو یاد رکھ! یہ قیامت کے روز ربِ ذوالجلال کے سامنے تیرا گریبان پکڑیں گے اور کہیں گے کہ یہی وہ شخص ہے جو غیر مستحق لوگوں میں مال بانٹتا تھا اورمستحقین کو بھوکا رکھتا تھا۔‘‘
شیخ کی یہ باتیں سن کر سلطان دھاڑیں مار مارکر رونے لگا۔ جب حالت سنبھلی تو عرض کیا: ’’آپ مجھ سے کچھ قبول نہیں فرماتے تو مجھے ہی کوئی تبرک عنایت فرمائیے۔‘‘ یہ سن کر شیخ نے اپنا کُرتا اُتارااور سلطان کو دے دیا۔ سلطان نے نہایت ادب سے کُرتے کو چُوما اور اجازت طلب کی۔ شیخ اٹھ کھڑے ہوئے اور دروازے تک سلطان کو چھوڑنے کے لیے آئے۔ رخصت کے وقت سلطان نے پوچھا! حضرت، کیا بات ہے، جب میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا تو آپ نے میری طرف التفات بھی نہیں فرمایا۔ اب رخصت کے وقت اتنی عزت افزائی کیوں فرما رہے ہیں؟
شیخ نے فرمایا: ’’جب تم فقیر کے حجرے میں آئے تھے تو تمھارے دماغ میں بادشاہت کی بُو بسی ہوئی تھی مگر اب رخصت کے وقت تمھارا یہ حال نہیں ہے۔‘‘ دن گزرتے گئے، کئی سال بعد سلطان محمود غزنوی نے سومنات پر حملہ کیا۔ کئی روز جنگ ہوتی رہی، آخر جب سلطان کو فتح میں دشواری نظر آئی تو حضرت شیخ ابوالحسن خرقانی کا پیراہن منگوایا۔ پیراہن لایا گیا تو اسے پہن کر سلطان سجدے میں گر گیااور دیر تک گڑ گڑا کر فتح کی دعا مانگتا رہا: ’’رب العالمین! شیخ ابوالحسن خرقانی کے پیراہن کا واسطہ، مسلمانوں کو فتح یاب فرما۔‘‘ سلطان کی دعا قبول ہوئی، دیکھتے ہی دیکھتے میدان جنگ کا نقشہ پلٹ گیا۔مسلمان فتح یاب ہوئے اور سومنات کے بُت ان کے گُرزوں سے ٹوٹ ٹوٹ کر گرنے لگے۔
’’اولیائے اللہ کے مراتب کا کیا کہنا! ان کی صحبت میں بیٹھ کر تو انسان کی کایا پلٹ جاتی ہے۔‘‘ یہ سن کر ایک امیر جس کا نام عبدالرحمان تھا، کھڑا ہوا اور نہایت ادب سے عرض کی:
اللہ سلطان کے اقبال کو دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی عطا فرمائے۔ خرقان میں حضرت شیخ ابوالحسن نامی ایک ایسے ولی اللہ موجود ہیں۔ غلام نے کئی بار ان کی زیارت سے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈا کیا۔ ان کا ایک عمل بھی سنت نبویﷺ سے ہٹا ہوا نہیں ۔ ’’تو ایسے ولی اللہ کی ہمیں بھی زیارت کرنی چاہیے۔‘‘ یہ کہہ کر سلطان نے حکم دیا کہ خرقان جانے کی تیاری کی جائے۔
چند روز بعد سلطان حزم و حشم کے ساتھ غزنی سے خرقان جا پہنچا۔
سلطان نےحضرت شیخ ابوالحسن کی زیارت کی اور کہا ’’میرے لیے دعائے خیر فرمائیے۔‘‘ حضرت شیخ نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اور کہا، ’’اے اللہ! سب مومنین اور مومنات کو بخش دے۔‘‘ سلطان نے کہا ’’میرے لیے خاص دعا فرمائیے۔‘‘ شیخ نے فرمایا: ’’اللہ تیری عاقبت محمود فرمائے۔‘‘ اس کے بعد سلطان نے اشرفیوں کی ایک تھیلی شیخ کے سامنے رکھی اور کہا، یہ نذر قبول فرمائیے۔
شیخ نے جو کی ایک روٹی سلطان کے سامنے رکھی اور فرمایا: ’’یہ تمھاری دعوت ہے اس کوتناول کرو۔‘‘
سلطان نے جوکی کی روٹی کھانا شروع کی لیکن پہلا ہی نوالہ حلق میں اٹک گیا۔ شیخ نے یہ حالت دیکھی تو پوچھا: ’’کیا نوالہ حلق میں اٹکتا ہے؟‘‘ سلطان نے اثبات میں جواب دیا تو شیخ نے فرمایا: ’’تو یہ اشرفیوں کی تھیلی بھی میرے حلق میں اٹک جائے گی۔ اس کو فوراً اٹھا لو، یہ اشرفیاں بادشاہوں کی خوراک ہیں۔ فقیر کے لیے جوکی کی روٹی نعمتِ عظمیٰ ہے۔‘‘
سلطان نے اشرفیاں قبول کرنے پر اصرار کیا تو فرمایا: ’’یاد رکھ! ان اشرفیوں پر نہ تیرا حق ہے نہ میرا۔ ان کو قوم کی امانت سمجھو، اگرتم ان کو قوم کی مرضی کے خلاف تقسیم کرو گے تو قوم کے مال میں خیانت کروگے۔ اگر توان اشرفیوں کو خیرات ہی کرنا چاہتا ہے تو تیرے ملک میں بہت سے مساکین ہیں، جب تُو سو جاتا ہے تو وہ اس لیے جاگتے ہیں کہ ان کے پیٹ خالی ہوتے ہیں۔
تیرے ملک میں ایسے شریف اور سفید پوش بھی موجود ہیں جو بظاہر آسودہ حال نظر آتے ہیں لیکن عسرت اور ناداری نے ان کے سینوں کو چھلنی کر رکھا ہے۔ وہ اپنی خودداری قائم رکھنے کے لیے کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے۔ اگر تو ان کی خبر گیری نہیں کرے کا تو یاد رکھ! یہ قیامت کے روز ربِ ذوالجلال کے سامنے تیرا گریبان پکڑیں گے اور کہیں گے کہ یہی وہ شخص ہے جو غیر مستحق لوگوں میں مال بانٹتا تھا اورمستحقین کو بھوکا رکھتا تھا۔‘‘
شیخ کی یہ باتیں سن کر سلطان دھاڑیں مار مارکر رونے لگا۔ جب حالت سنبھلی تو عرض کیا: ’’آپ مجھ سے کچھ قبول نہیں فرماتے تو مجھے ہی کوئی تبرک عنایت فرمائیے۔‘‘ یہ سن کر شیخ نے اپنا کُرتا اُتارااور سلطان کو دے دیا۔ سلطان نے نہایت ادب سے کُرتے کو چُوما اور اجازت طلب کی۔ شیخ اٹھ کھڑے ہوئے اور دروازے تک سلطان کو چھوڑنے کے لیے آئے۔ رخصت کے وقت سلطان نے پوچھا! حضرت، کیا بات ہے، جب میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا تو آپ نے میری طرف التفات بھی نہیں فرمایا۔ اب رخصت کے وقت اتنی عزت افزائی کیوں فرما رہے ہیں؟
شیخ نے فرمایا: ’’جب تم فقیر کے حجرے میں آئے تھے تو تمھارے دماغ میں بادشاہت کی بُو بسی ہوئی تھی مگر اب رخصت کے وقت تمھارا یہ حال نہیں ہے۔‘‘ دن گزرتے گئے، کئی سال بعد سلطان محمود غزنوی نے سومنات پر حملہ کیا۔ کئی روز جنگ ہوتی رہی، آخر جب سلطان کو فتح میں دشواری نظر آئی تو حضرت شیخ ابوالحسن خرقانی کا پیراہن منگوایا۔ پیراہن لایا گیا تو اسے پہن کر سلطان سجدے میں گر گیااور دیر تک گڑ گڑا کر فتح کی دعا مانگتا رہا: ’’رب العالمین! شیخ ابوالحسن خرقانی کے پیراہن کا واسطہ، مسلمانوں کو فتح یاب فرما۔‘‘ سلطان کی دعا قبول ہوئی، دیکھتے ہی دیکھتے میدان جنگ کا نقشہ پلٹ گیا۔مسلمان فتح یاب ہوئے اور سومنات کے بُت ان کے گُرزوں سے ٹوٹ ٹوٹ کر گرنے لگے۔
0 comments:
Post a Comment