Wednesday, 24 April 2013

دہشت گردی ان مسائل میں سے ایک ہے جن کا پاکستان کو آجکل سامنا ہے۔ دہشت گرد پاکستان میں دہشت گردی پھیلانے کے لئے کئی ذرائع استعمال کر رہے ہیں۔ اس مضمون کو لکھنے کا مقصد اپنے قارئین کو مطلع کرنا ہے کہ ان کے چوری شدہ فون کی وجہ سے ان کو کن مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اگر آپکا موبائل چوری ہو گیا ہے یا کہیں کھو گیا ہے تو آپکو پتہ ہونا چاہیئے کہ اس ڈیوائس کو ممکنہ طور پر کسی بھی دہشت گردی سے متعلق سرگرمیوں میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔
دہشت گرد زیادہ تر سیل فونز کے ذریعے ایک دوسرے سے رابطہ کرتے ہیں، اور ان میں زیادہ تر سیل فونز چوری کر رہے ہیں۔ جب کبھی تحقیقاتی ایجنسی کسی بھی دہشت گردی سے متعلق کیس کی تحقیق کرتی ہیں؛مثال کے طور پر بم دھماکے وغیرہ تو انہیں بہت سے نشانات ملتے ہیں۔ ان میں سے اہم موبائل فون ہے،اور زیادہ تر، دہشت گردوں کے سم کارڈ وغیرہ۔
جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا کہ اس طرح کی سرگرمیوں میں استعمال کیے جانے والے فون زیادہ تر چرائے گئے ہوتے ہیں۔ اور ان کے اندر سم کارڈز بھی موجود ہوتے ہیں۔ لہذا سیکورٹی ایجنسیاں سیل فونز اور سم کارڈ کے مالک کو تلاش کرتی ہیں۔ اب آپ سمجھ لیں آپ کہاں پھنس سکتے ہیں؟یہ بات خوفناک ہے کہ نہیں؟

سِم کیسے بلاک کریں؟

آپکو چاہیئے کہ چوری شدہ سم سے متعلقہ سیلولر ہیلپ لائن کو کال کریں۔ انہیں بتائیے کہ آپکی سم چوری ہو گئی ہے تاکہ وہ سم کو بلاک کر دیں۔ وہ آپ سے یہ تفصیلات پوچھیں گے:
  • آپ کا نام
  •  آپ کا سم نمبر 
  • آپ کا قومی شناختی کارڈ نمبر
  • آپ کا پتہ
  • یا پھر آپ متعلقہ فرنچائز کو دورہ کریں اور یہ عمل انجام دیں۔
فون کو بلاک کیسے کیا جائے:

چوری شدہ فون کی رپورٹ کرنے اور بلاک کرنے کے لیے آپ کو آپ کے فون کی IMEI نمبر معلوم ہونا ضروری ہے۔ اگر آپ کو نہیں معلوم تو *#06# ڈائل کر کے معلوم کر لیجیئے۔ (اگر آپکا فون ابھی چوری نہیں ہوا تو۔۔۔)
لیکن فون چوری ہو جائے تو، آپ چوری شدہ موبائل فون کے باکس کا پتہ لگایے اور آپ کو باکس کی پشت پر اس کا IMEI نمبر مل جائے گا۔ اور یہ آسان ہے۔
سب سے پہلی چیز، 15 پر کال کریں، اور پولیس کو رپورٹ کریں۔
پی ٹی اے کے ٹول فری نمبر 0800-25625 پر کال کریں اور تمام تفصیلات سے آگاہ کیجیئے۔
یا آپ اس لنک کا دورہ کر کے شہری پولیس کو شکایت فارم پُر کر سکتے ہیں:
http://www.cplc.org.pk/theft_form.php
(بس اتنا ہی ہے، اب آپ زیادہ محفوظ ہیں۔)

0 comments:

Post a Comment