انصاف
چلتے چلتے جب بھوک چمک اٹھی تو
دونوں مسافر ایک سایہ دار درخت کی چھاؤں میں کھانے کے لئے بیٹھ گئے۔ ان میں
سے ایک کے پاس پانچ اور دوسرے کے پاس تین روٹیاں تھیں۔
ابھی وہ کھانا شروع بھی نہیں کر پائے تھے کہ ایک سودا گر گھوڑے پر سوار اُدھر آنکلا۔ چونکہ درخت سایہ دار تھا اس لئے وہ گھوڑے پر سے اتر کر ان دونوں سے کچھ فاصلے پر آرام کی غرض سے بیٹھ گیا۔
ان دونوں نے کھانا شروع کرنے سے پہلے اخلاقاً اس تاجر سے کہا۔" جناب آئیے ، آپ بھی کھانے میں شرکت کیجئے۔"
سودا گر بھوکا تھا۔ اس لئے دونوں کے پاس جا کر بیٹھ گیا۔
دونوں مسافروں نے اپنی اپنی روٹیوں کے تین تین ٹکڑے کئے اور تینوں نے برابر بانٹ کر کھا لیا۔
دوبارہ سفر شروع کرنے کی غرض سے گھوڑے پر سوار ہونے سے پہلے سودا گر نے ان کے سامنے آٹھ آنے پیسے بڑھاتے ہوئے بڑی عاجزی سے کہا۔"براہ کرم آپ لوگ اسے قبول کر لیں"۔
سودا گر کے جانے بعد ان دونوں نے اس رقم کو آپس میں بانٹ لینے کی سوچی!
پہلے مسافر نے اپنی روٹیوں کی تعداد کے حساب سے خود پانچ آنے رکھ کر اپنے ساتھ کی طرف تین آنےبڑھا دئیے۔
لیکن دوسرے مسافر نے اُسے لینے سے انکار کر دیا ۔ وہ پیسے پھینکتے ہوئے بولا۔ " واہ! یہ بھی کوئی بٹوارہ ہے۔ دینا ہے تو مجھے آدھے پیسے دو"۔
"ہاں نہ" اور "نہ ہاں" کی تکرار بڑھتے بڑھتے جھگڑے کی نوبت آگئی۔ مگر جھگڑا ہونے سے پہلے ہی عقل کام دے گئی اور وہ دونوں ایک منصف کے پاس پہنچے۔
منصف نے پہلے شروع سے آخر تک ان سے تفصیل سنی ، چند لمحے تک غور وخوص کرنے کے بعد ان دونوں کو اپنا فیصلہ سناتے ہوئے ان سے کہا۔"اچھا سنئے! آپ میں سے پہلے کو سات آنے ملیں گے اور دوسرے کو صرف ایک آنہ ملے گا"۔
منصف کا فیصلہ سن کر دوسرا مسافر دل ہی دل میں اسے برا بھلا کہنے لگا۔ پھر طنزیہ لہجے میں بولا :
جناب عالی! آپ نے خوب انصاف کیا ہے۔ مجھے تو پہلے ہی تین آنے مل رہے تھے۔ اب آپ صرف ایک ہی دلوا رہے ہیں۔ کمال ہے آپ کے انصاف کا"۔
منصف ایک لمحے تک اس کی طرف دیکھتا رہا۔ پھر مسکراتے ہوئے اس نے پہلے مسافر سے پوچھا: "آپ کی روٹیاں کتنی تھیں"؟
"صرف پانچ"۔
"آپ نے روٹیوں کے کل کتنے ٹکڑے کئے تھے"؟
"پندرہ ٹکڑے"
"آپ نے کتنے ٹکڑے خود کھائے اور کتنے ٹکڑے تاجر کو دئیے"؟
"میں نے خود آٹھ ٹکڑے کھائے اور باقی سات ٹکڑے اس سودا گر کودئیے"۔
اب منصف نے دوسرے مسافر سے پوچھا۔"آپ کی روٹیوں کے نو ہی ٹکڑے تھے نا"؟
"جی ہاں اتنے ہی تھے۔"
"اب آپ ایمانداری سے بتائیں کہ ان میں سے کتنے ٹکڑے آپ نے خود کھائے اور کتنے مسافر کو دئیے تھے"۔
میں نے آٹھ ٹکڑے خود کھائے تھے اور ایک ٹکڑا سودا گر کو دیا تھا"۔
"بس تو پھر آپ ہی بتلائیے کہ آپ کو حساب سے ایک آنہ ہی ملنا چاہیے یا اس سے زیادہ"؟
منصف نے کہا۔
دوسرے مسافر سے اب کچھ نہیں بنا۔ وہ منصف کے اس عجیب و غریب انصاف سے متاثر ہو کر دل ہی دل میں اس کی تعریف کرتا ہوا چلا گیا۔
ابھی وہ کھانا شروع بھی نہیں کر پائے تھے کہ ایک سودا گر گھوڑے پر سوار اُدھر آنکلا۔ چونکہ درخت سایہ دار تھا اس لئے وہ گھوڑے پر سے اتر کر ان دونوں سے کچھ فاصلے پر آرام کی غرض سے بیٹھ گیا۔
ان دونوں نے کھانا شروع کرنے سے پہلے اخلاقاً اس تاجر سے کہا۔" جناب آئیے ، آپ بھی کھانے میں شرکت کیجئے۔"
سودا گر بھوکا تھا۔ اس لئے دونوں کے پاس جا کر بیٹھ گیا۔
دونوں مسافروں نے اپنی اپنی روٹیوں کے تین تین ٹکڑے کئے اور تینوں نے برابر بانٹ کر کھا لیا۔
دوبارہ سفر شروع کرنے کی غرض سے گھوڑے پر سوار ہونے سے پہلے سودا گر نے ان کے سامنے آٹھ آنے پیسے بڑھاتے ہوئے بڑی عاجزی سے کہا۔"براہ کرم آپ لوگ اسے قبول کر لیں"۔
سودا گر کے جانے بعد ان دونوں نے اس رقم کو آپس میں بانٹ لینے کی سوچی!
پہلے مسافر نے اپنی روٹیوں کی تعداد کے حساب سے خود پانچ آنے رکھ کر اپنے ساتھ کی طرف تین آنےبڑھا دئیے۔
لیکن دوسرے مسافر نے اُسے لینے سے انکار کر دیا ۔ وہ پیسے پھینکتے ہوئے بولا۔ " واہ! یہ بھی کوئی بٹوارہ ہے۔ دینا ہے تو مجھے آدھے پیسے دو"۔
"ہاں نہ" اور "نہ ہاں" کی تکرار بڑھتے بڑھتے جھگڑے کی نوبت آگئی۔ مگر جھگڑا ہونے سے پہلے ہی عقل کام دے گئی اور وہ دونوں ایک منصف کے پاس پہنچے۔
منصف نے پہلے شروع سے آخر تک ان سے تفصیل سنی ، چند لمحے تک غور وخوص کرنے کے بعد ان دونوں کو اپنا فیصلہ سناتے ہوئے ان سے کہا۔"اچھا سنئے! آپ میں سے پہلے کو سات آنے ملیں گے اور دوسرے کو صرف ایک آنہ ملے گا"۔
منصف کا فیصلہ سن کر دوسرا مسافر دل ہی دل میں اسے برا بھلا کہنے لگا۔ پھر طنزیہ لہجے میں بولا :
جناب عالی! آپ نے خوب انصاف کیا ہے۔ مجھے تو پہلے ہی تین آنے مل رہے تھے۔ اب آپ صرف ایک ہی دلوا رہے ہیں۔ کمال ہے آپ کے انصاف کا"۔
منصف ایک لمحے تک اس کی طرف دیکھتا رہا۔ پھر مسکراتے ہوئے اس نے پہلے مسافر سے پوچھا: "آپ کی روٹیاں کتنی تھیں"؟
"صرف پانچ"۔
"آپ نے روٹیوں کے کل کتنے ٹکڑے کئے تھے"؟
"پندرہ ٹکڑے"
"آپ نے کتنے ٹکڑے خود کھائے اور کتنے ٹکڑے تاجر کو دئیے"؟
"میں نے خود آٹھ ٹکڑے کھائے اور باقی سات ٹکڑے اس سودا گر کودئیے"۔
اب منصف نے دوسرے مسافر سے پوچھا۔"آپ کی روٹیوں کے نو ہی ٹکڑے تھے نا"؟
"جی ہاں اتنے ہی تھے۔"
"اب آپ ایمانداری سے بتائیں کہ ان میں سے کتنے ٹکڑے آپ نے خود کھائے اور کتنے مسافر کو دئیے تھے"۔
میں نے آٹھ ٹکڑے خود کھائے تھے اور ایک ٹکڑا سودا گر کو دیا تھا"۔
"بس تو پھر آپ ہی بتلائیے کہ آپ کو حساب سے ایک آنہ ہی ملنا چاہیے یا اس سے زیادہ"؟
منصف نے کہا۔
دوسرے مسافر سے اب کچھ نہیں بنا۔ وہ منصف کے اس عجیب و غریب انصاف سے متاثر ہو کر دل ہی دل میں اس کی تعریف کرتا ہوا چلا گیا۔
0 comments:
Post a Comment