حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خاندان کی شان ميں سورةالدھر کی آیات
ایک
مرتبہ جب حضرت امام حسن اورامام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہا دونوں بیمار
ہوگئے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر تشریف لے گئے اورآپ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’ان کے لئے نذر کرو۔ منت مانو‘‘۔
سیدنا علی رضی اللہ عنھا، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا اوران کی خادمہ حضرت فضہ رضی اللہ عنھا تینوں نے منت مان لی کہ اگر یہ شفا یاب ہوگئے تو ہم تین روزے رکھیں گے۔ چنانچہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنھا نے شمعون خیبر جو یہودی تھا سے کچھ قرض لیا اور ایک روایت میں ہے کہ کام کر کے اجرت کے طور پر کچھ لیا اور ان تھوڑے سے پیسوں سے سحری و افطاری کا اہتمام کیا۔ پہلے دن جب افطار کا وقت ہوا تو دروازے پر آ کر ایک شخص نے آواز دی۔ اے اہل بیت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بھوکا ہوں۔ سیدہ کائنات رضی اللہ عنھا نے حضرت علی رضی اللہ عنھا سے پوچھا اور روٹی کے ساتھ جو کھانا پکا تھا وہ سارا اُٹھا کر مسکین کو دے دیا اور خود پانی سے روزہ افطار کیا۔ اگلے دن روزہ رکھا جوبچا تھا وہ پکایا۔ افطار کا وقت ہوا تو ایک اور سائل آگیا۔ اس نے کہا کہ میں یتیم ہوں تو سارا پکا ہوا کھانا اس یتیم کو دے دیا اورخود پانی سے روزہ افطار کر لیا۔ تیسرے دن روزہ رکھا پھر سائل آگیا۔ اس نے کہا کہ میں قیدی ہوں خدا کے لئے مجھے دیں۔ میں بھوکاہوں۔ پھر سب کچھ اس کو دے دیا اور خود پانی سے روزہ افطار کیا۔ یوں تینوں دن جب روزہ پانی سے افطار ہوتا رہا۔ منت پوری کرنے سے امام حسن رضی اللہ عنھا اور امام حسین رضی اللہ عنھا شفایاب ہو تو گئے تھے مگر بھوک کی وجہ سے ان کے پیارے پیارے چہرے مرجھاگئے۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنھا اورخاتون جنت حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنھا کے چہرے بھی مرجھا گئے تھے اور ان کا پیٹ اندر کی طرف لگ گیا۔ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی المرتضی، حسنین کریمین، سیدہ فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہم کا چہرہ دیکھا تو پوچھا : کیا ماجرا ہے؟ انہوں نے بتایا : آقا علیہ السلام یہ واقعہ ہوا ہے۔ بس اتنی بات ہوئی تھی اور ابھی آقا علیہ السلام کے دل میں تھوڑا سا دکھ آیا ہی تھا کہ میری شہزادی بیٹی نے کتنی قربانی دی ہے؟ میرے شہزادوں نے تین دن کیسے بھوک سے گذارے کہ اسی اثنا میں جبریل علیہ السلام اترے اورحاضر ہو کر عرض کرنے لگے۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ لیجئے سورۃ الدھر کی آیات۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیات سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا اور ان کے گھرانے کے لئے تحفہ بھیجی ہیں۔ اس لئے کہ جب انہوں نے نذر مانی تھی تو افطار کے وقت وہ اللہ کی محبت میں کسی دن مسکین، کسی دن یتیم اور کسی دن قیدی کو کھانا کھلا دیتے تھے۔ اس کے بعد جبرئیل علیہ السلام نے سورۃ الدھر کی درج ذیل آیات تلاوت کیں۔
يُوفُونَ بِالنَّذْرِ وَيَخَافُونَ يَوْمًا كَانَ شَرُّهُ مُسْتَطِيرًاo وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًاo إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ لَا نُرِيدُ مِنكُمْ جَزَاءً وَلَا شُكُورًاo
(الدهر، 76 : 7 - 10)
’’(یہ بندگانِ خاص وہ ہیں) جو (اپنی) نذریں پوری کرتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے ہیں جن کی سختی خوب پھیل جانے والی ہے اور اپنا کھانا اللہ کی محبت میں (خود اس کی طلب و حاجت ہونے کے باوجود ایثاراً) محتاج کو اور یتیم کو اور قیدی کو کھلا دیتے ہیں (اور کہتے ہیں کہ) ہم تو محض اللہ کی رضا کے لئے تمہیں کھلا رہے ہیں۔ نہ تم سے کسی بدلہ کے خواستگار ہیں اور نہ شکر گزاری کے (خواہشمند) ہیں۔ ہمیں تو اپنے رب سے اس دن کا خوف رہتا ہے جو (چہروں کو) نہایت سیاہ (اور) بدنما کردینے والا ہے‘
سیدنا علی رضی اللہ عنھا، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا اوران کی خادمہ حضرت فضہ رضی اللہ عنھا تینوں نے منت مان لی کہ اگر یہ شفا یاب ہوگئے تو ہم تین روزے رکھیں گے۔ چنانچہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنھا نے شمعون خیبر جو یہودی تھا سے کچھ قرض لیا اور ایک روایت میں ہے کہ کام کر کے اجرت کے طور پر کچھ لیا اور ان تھوڑے سے پیسوں سے سحری و افطاری کا اہتمام کیا۔ پہلے دن جب افطار کا وقت ہوا تو دروازے پر آ کر ایک شخص نے آواز دی۔ اے اہل بیت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بھوکا ہوں۔ سیدہ کائنات رضی اللہ عنھا نے حضرت علی رضی اللہ عنھا سے پوچھا اور روٹی کے ساتھ جو کھانا پکا تھا وہ سارا اُٹھا کر مسکین کو دے دیا اور خود پانی سے روزہ افطار کیا۔ اگلے دن روزہ رکھا جوبچا تھا وہ پکایا۔ افطار کا وقت ہوا تو ایک اور سائل آگیا۔ اس نے کہا کہ میں یتیم ہوں تو سارا پکا ہوا کھانا اس یتیم کو دے دیا اورخود پانی سے روزہ افطار کر لیا۔ تیسرے دن روزہ رکھا پھر سائل آگیا۔ اس نے کہا کہ میں قیدی ہوں خدا کے لئے مجھے دیں۔ میں بھوکاہوں۔ پھر سب کچھ اس کو دے دیا اور خود پانی سے روزہ افطار کیا۔ یوں تینوں دن جب روزہ پانی سے افطار ہوتا رہا۔ منت پوری کرنے سے امام حسن رضی اللہ عنھا اور امام حسین رضی اللہ عنھا شفایاب ہو تو گئے تھے مگر بھوک کی وجہ سے ان کے پیارے پیارے چہرے مرجھاگئے۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنھا اورخاتون جنت حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنھا کے چہرے بھی مرجھا گئے تھے اور ان کا پیٹ اندر کی طرف لگ گیا۔ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی المرتضی، حسنین کریمین، سیدہ فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہم کا چہرہ دیکھا تو پوچھا : کیا ماجرا ہے؟ انہوں نے بتایا : آقا علیہ السلام یہ واقعہ ہوا ہے۔ بس اتنی بات ہوئی تھی اور ابھی آقا علیہ السلام کے دل میں تھوڑا سا دکھ آیا ہی تھا کہ میری شہزادی بیٹی نے کتنی قربانی دی ہے؟ میرے شہزادوں نے تین دن کیسے بھوک سے گذارے کہ اسی اثنا میں جبریل علیہ السلام اترے اورحاضر ہو کر عرض کرنے لگے۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ لیجئے سورۃ الدھر کی آیات۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیات سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا اور ان کے گھرانے کے لئے تحفہ بھیجی ہیں۔ اس لئے کہ جب انہوں نے نذر مانی تھی تو افطار کے وقت وہ اللہ کی محبت میں کسی دن مسکین، کسی دن یتیم اور کسی دن قیدی کو کھانا کھلا دیتے تھے۔ اس کے بعد جبرئیل علیہ السلام نے سورۃ الدھر کی درج ذیل آیات تلاوت کیں۔
يُوفُونَ بِالنَّذْرِ وَيَخَافُونَ يَوْمًا كَانَ شَرُّهُ مُسْتَطِيرًاo وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًاo إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ لَا نُرِيدُ مِنكُمْ جَزَاءً وَلَا شُكُورًاo
(الدهر، 76 : 7 - 10)
’’(یہ بندگانِ خاص وہ ہیں) جو (اپنی) نذریں پوری کرتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے ہیں جن کی سختی خوب پھیل جانے والی ہے اور اپنا کھانا اللہ کی محبت میں (خود اس کی طلب و حاجت ہونے کے باوجود ایثاراً) محتاج کو اور یتیم کو اور قیدی کو کھلا دیتے ہیں (اور کہتے ہیں کہ) ہم تو محض اللہ کی رضا کے لئے تمہیں کھلا رہے ہیں۔ نہ تم سے کسی بدلہ کے خواستگار ہیں اور نہ شکر گزاری کے (خواہشمند) ہیں۔ ہمیں تو اپنے رب سے اس دن کا خوف رہتا ہے جو (چہروں کو) نہایت سیاہ (اور) بدنما کردینے والا ہے‘
0 comments:
Post a Comment