Wednesday, 24 April 2013

انسانوں کی غمخواری کرنا

انسانوں کی غمخواری کرنا اور دکھ درد میں دوسرے کے کام آنا ایک بہت بڑ ی انسانی خوبی ہے۔ یہ خوبی اس وقت بہت نمایاں ہو کر سامنے آتی ہے جب کوئی مصیبت بڑے پیمانے پر آجائے اور بہت بڑ ی تعداد میں لوگ کسی پریشانی میں گھر جائیں ۔ اس کی ایک مثال پاکستان میں آنے والا حالیہ سیلاب تھا۔ اس سیلاب سے ہونے والی تباہی کی تفصیلات جب میڈیا کے ذریعے لوگوں کے سامنے آئیں تو لوگوں کا جذبۂ ہمدری پوری طرح بیدار ہو گیا۔ مہنگائی اور معاشی تنگی کے اس دور میں بھی لوگوں نے اربوں روپے سیلاب زدگان کی مدد کے لیے جمع کر دیے ۔ بہت سے لوگوں نے اپنے آرام و اسباب کو چھوڑ ا اور ضرورت مندوں کی مدد کرنے کے لیے انتہائی تکلیف دہ حالات کا سامنا کرتے ہوئے گھروں سے نکل پڑ ے ۔ مرد، عورت، نوجوان، بوڑ ھے ، بچے ، جس سے جو ہو سکا دامے ، درمے ، قدمے ، سخنے ، وہ اس نے کیا۔ 
دوسروں کے مصائب دور کرنے کا یہی جذبہ تمام سوشل ورک اور خدمت خلق کے کاموں کی بنیاد ہے ۔ اس کام میں کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ لوگ مصیبت زدگان کی مدد کرتے ہوئے تردد کریں ۔ جب انھیں کسی شخص پر اطمینان ہوجاتا ہے تو لوگ جان و مال ہر طرح سے ایسے کاموں کے لیے فعال ہوجاتے ہیں ۔ انسانی ہمدردی بلاشبہ انسانیت کا اعلیٰ ترین وصف ہے اور یہی وہ جذبہ ہے جو انسانوں کو جانوروں سے افضل اور برتر بناتا ہے۔  
دیگر انسانوں کی طرح اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر انبیا بھی خدمت خلق کے میدان میں نمایاں نظر آتے ہیں۔ ان کے در سے کبھی سوالی خالی لوٹتا تھا اور نہ مصائب زدہ لوگ خود کو تنہا پاتے تھے ۔ مگر عجیب بات یہ ہے کہ سوشل ورک کبھی کسی نبی اور رسول کی زندگی کا مقصد نہیں بنا۔ اس کے بجائے ان کی زندگی کا اصل مقصد روز قیامت اللہ تعالیٰ کی ملاقات سے خبردار کرنا اور ان اعمال کی ہدایت دینا ہوتا تھا جو اللہ تعالیٰ کے مطلوب اعمال ہیں ۔ کوئی نبی یا رسول اس طرح کی زندگی اور مقصد کے ساتھ جیتا ہوا نظر نہیں آتا جس طرح کا مقصد آج کے بعض انتہائی قابل احترام سوشل ورکر جیسے عبدالستار ایدھی کی زندگی کا ہے۔  
بظاہر یہ بات عجیب ہے ، مگر درحقیقت انبیا کا تمام تر کام لوگوں کی ہمدردی اور خیرخواہی کے لیے ہی ہوتا ہے ۔ فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ ایک عام سوشل ورکر صرف دنیا کے مسائل کو سامنے رکھ کر انسانوں کے ان مسائل کو حل کرنا چاہتا ہے۔ جبکہ نبی اور رسول کے سامنے آخرت کی دنیا کے مسائل ہوتے ہیں۔ عام لوگوں کو دنیا کی محرومی نظر آتی ہے ، خدا کے نبی یہ جانتے ہیں کہ آخرت کی محرومی کا مطلب کیا ہوتا ہے۔ 
دنیا میں انسان کے ساتھ پیش آنے والا بدترین سانحہ موت ہوتا ہے۔ قیامت کے دن خدا کے مجرموں کو ملنے والا عذاب اتنا شدید ہو گا کہ اس روز ان کے لیے موت سب سے بڑ ی خوش قسمتی بن جائے گی۔ دنیا میں معذوری اور آنسوؤں کا مشاہدہ انسانی ہمدردری کے جذبات ابھارتا ہے ۔ انبیا کی نظروں کے سامنے وہ جہنم ہوتی ہے جس کی چمڑ ی ادھیڑ کر رکھ دینے والی آگ نہ جینے دے گی نہ مرنے دے گی۔ عام لوگوں کو غربت و افلاس سب سے بڑ ا مسئلہ لگتے ہیں ، قیامت کے دن سب سے بڑ ا مسئلہ جنت کی ابدی بادشاہی سے محرومی ہو گا۔  
انبیا کی سیرت کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ بلاشبہ لوگوں کے دنیوی مصائب حل کرنا بڑ ی خدمت ہے ، لیکن انھیں جہنم کا ایندھن بننے سے بچانا زیادہ بڑ ی خدمت ہے ۔ آج بھی جو لوگ اس کام کے لیے اٹھتے اور اس کام میں مالی اور عملی تعاون کرتے ہیں کل قیامت کے دن وہ انبیا کے ساتھ کھڑ ے ہوں گے ۔ انہیں بیک وقت خدمت خلق کا اجر بھی ملے گا اور عبادت رب کا بھی۔ وہ نصرت دین کا اجر بھی دیکھیں گے اور انسانوں کی خیرخواہی کا صلہ بھی پائیں گے ۔

0 comments:

Post a Comment