سچی توبہ اور دینِ برحق
حضرت
فضیل بن عیاض رحمتہ اللہ علیہ بڑے زبردست اور یگانہ ¿ روزگار ولی گذرے ہیں
۔ اللہ کی کرم نوازی دیکھیں کہ پہلے ڈاکہ زنی کرتے تھے ۔مگر توبہ کرنے کے
بعد بارگاہِ خدا وندی میں وہ مقام پایا کہ جس کا حساب نہیں۔ ابتدا ءمیں
عجیب حالت تھی ۔ ایک گھنے جنگل میں نگاہوں سے دور، خیمہ زن رہتے ۔ پشینہ کی
ٹوپی ٹاٹ کے کپڑے ، گلے میں تسبیح ۔ نماز کے اتنے پابند کہ کبھی بلا جماعت
نماز نہ پڑھتے اور ساتھیو ں میں سے بھی جو
نماز نہ پڑھتا اسے اپنے سے علیحدہ کر دیتے ۔ جتنے خدام تھے وہ بھی نمازی
تھے ۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ عبادت میں گونہ انہماک بھی تھا ۔ نفلی روزے
بکثرت رکھتے ۔ سب کے سب چور ڈاکو اور سب کے سب نمازی و عبادت گزار۔ بڑے بڑے
قافلے لُوٹتے ۔ ڈاکو لُوٹ کا سارا مال لا کر آپ کے سامنے رکھ دیتے ۔ چونکہ
آپ سردار تھے اور مال آپ ہی تقسیم کرتے لہذا حسب پسند مال اپنے لئے رکھ
لیتے۔ ایک روز ایک بڑا قافلہ ادھر سے گزرا ۔ ڈاکو اس پر حملہ آور ہوئے ۔
ایک شخص قافلہ سے علیحدہ ہو کر اپنی نقدی کسی محفوظ جنگل میں دفن کرنے کو
نکل گیا اس نے جو دیکھا کہ خیمہ میں ایک شخص تسبیح و مصلےٰ سمیت بیٹھا ہے
تو اس نے بزرگ سمجھ کر روپیہ اس کے سپرد کر دیا اور قافلہ میں آگیا ۔
قافلہ کے لٹنے کے بعد وہ خیمہ کی طرف روپیہ لینے آیا تو کیا دیکھتا ہے کہ
ڈاکو وہاں بیٹھے ہوئے لوٹا ہوا مال باہر تقسیم کر رہے ہیں ۔ وہ بہت پریشان
ہوا کہ میں نے اپنی نقدی اپنے ہاتھوں ڈاکوﺅں کے حوالے کردی ۔ وہ خوف سے
پیچھے مڑا ہی تھا کہ حضرت فضیل رحمتہ اللہ علیہ نے دیکھ کر دور سے آواز دی ۔
یہ ڈرتا ڈرتا گیا ۔ پوچھا کیوں آیا ہے ؟ آہستہ سے رک رک کر کہا کہ اپنی
امانت لینے آیا تھا ۔ آپ نے اس کی امانت بلا تکلف اس کے سپرد کردی ۔ ڈاکوﺅں
کے استفسار پر آپ نے اس کی یہ توجیہہ کی کہ اس شخص نے میرے متعلق نیک گمان
کیا تھا اور میں بھی اللہ تعالیٰ پر نیک گمان کرتا ہو ں ۔ میں نے اس کا
گمان سچ کردیا تاکہ اللہ میرے گمان کو سچ کردے ۔ اس کے بعد دوسرا قافلہ
گذرا اور وہ بھی لوٹ لیا گیا ۔ قافلہ ہی کے ایک شخص نے پوچھا کہ تمہارا
سردار کہاں ہے ۔ بو لے دریا کے کنارے نماز پڑھ رہا ہے ۔ کہا نماز کا وقت تو
نہیں ۔ بو لے نفلی نماز پڑھ رہے ہیں ۔ پو چھا کہ وہ تمہارے ساتھ کھانے میں
شامل نہیں ۔ بو لے روزے سے ہے کہا رمضان تو نہیں ہے بولے نفلی روزے رکھے
ہوئے ہے۔ یہ شخص متعجب ہو کر آپ کے پا س آیا اور پوچھا حضرت نماز روزے کی
یہ دھوم دھام اور ا س پر چوری او ر ڈاکہ زنی ۔
فرمایا کیا تو نے قرآن میں وہ آیت نہیں پڑھی جس کا مفہوم یہ ہے کہ ” جنہو ں نے اپنے گناہو ں کا اعتراف کیا اور نیک اور برے دونوں عمل کیے اللہ تعالیٰ قادر ہے کہ انہیں بخش دے اور ان کے گناہ معاف کردے گا ۔
کچھ عرصہ گزرا کہ عشق نے قلب میں آگ لگائی ، غربا نوازی نے کشش پیدا کی، عبادت و ریاضت نے دل کو نرم کیا اور آقائے حقیقی کا کرم ہوا۔ شب کے وقت ایک قافلہ ادھر سے گزرا ۔ ایک شخص اونٹ کی پشت پر بیٹھا ہو اقرآن شریف پڑھتا جا رہا تھا کہ یہ آیت آپ کے گوش زد ہوئی ” اَلَم یَانِ لِلَّذِینَ اٰمَنُوآاَن تَخشَعَ قُلُو بُھُم لِذِکرِاللّٰہِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الحَقِّ “ (سورئہ حدید آیت نمبر 16)یعنی کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ایمانداروں کے قلوب اللہ کے ذکر سے لر ز نے لگیں ۔
ایک برق تھی جو کوند گئی ایک تیر تھا جو جگر میں پیوست ہو گیا ۔ ایک چنگاری تھی جس نے جی جان میں ایک آگ لگا دی ۔ آپ ” آگیا “ کہتے ہوئے بے تابانہ نکل کھڑے ہوئے ۔ زاروقطار روتے تھے اور جنگل میں ادھر ادھر دوڑتے پھر تے تھے ۔ تمام معاصی گذشتہ سے تو بہ کی ۔ جس جس کا مال لو ٹا تھا اور اسے آپ جانتے تھے فرداً فرداً اس کے پاس پہنچے ۔ مال واپس کرتے اور قصور معاف کر اتے ۔ انہی میں ایک شقی القلب یہودی بھی تھا وہ کسی طر ح معاف کرنے پرراضی نہ ہو تا تھا ۔ پہلے اس نے ریت کے ایک بڑے ٹیلے کو اٹھا کر پھینک دینے کی شرط عائد کی، جو ایک ہوائے غیبی سے راتو ں رات ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوگیا ۔ پھر بو لا اچھا میں قسم کھا چکا تھا کہ جب تک میرا مال نہ دے گا میں معاف نہ کروں گا ۔ میرے سرہانے کی طرف اشرفیو ں کی تھیلی رکھی ہوئی ہے وہ نکال کرمجھے دے دیجئے ۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے اسی وقت تھیلی نکال کراس کے حوالے کی ۔ یہودی یہ دیکھ کر فوراً مسلمان ہو گیا بولا میں نے توراة میں دیکھا ہے کہ جو شخص سچی توبہ کر تا ہے وہ اگر مٹی میں ہا تھ ڈالے تو سونا ہو جاتی ہے۔میں نے اسی آزمائش کے لیے ایک تھیلی خاک سے بھر کر رکھ لی تھی ۔ اب مجھے علم ہو گیا ہے کہ تمہا ری توبہ بھی سچی ہے اور دین بھی حق ہے۔
فرمایا کیا تو نے قرآن میں وہ آیت نہیں پڑھی جس کا مفہوم یہ ہے کہ ” جنہو ں نے اپنے گناہو ں کا اعتراف کیا اور نیک اور برے دونوں عمل کیے اللہ تعالیٰ قادر ہے کہ انہیں بخش دے اور ان کے گناہ معاف کردے گا ۔
کچھ عرصہ گزرا کہ عشق نے قلب میں آگ لگائی ، غربا نوازی نے کشش پیدا کی، عبادت و ریاضت نے دل کو نرم کیا اور آقائے حقیقی کا کرم ہوا۔ شب کے وقت ایک قافلہ ادھر سے گزرا ۔ ایک شخص اونٹ کی پشت پر بیٹھا ہو اقرآن شریف پڑھتا جا رہا تھا کہ یہ آیت آپ کے گوش زد ہوئی ” اَلَم یَانِ لِلَّذِینَ اٰمَنُوآاَن تَخشَعَ قُلُو بُھُم لِذِکرِاللّٰہِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الحَقِّ “ (سورئہ حدید آیت نمبر 16)یعنی کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ایمانداروں کے قلوب اللہ کے ذکر سے لر ز نے لگیں ۔
ایک برق تھی جو کوند گئی ایک تیر تھا جو جگر میں پیوست ہو گیا ۔ ایک چنگاری تھی جس نے جی جان میں ایک آگ لگا دی ۔ آپ ” آگیا “ کہتے ہوئے بے تابانہ نکل کھڑے ہوئے ۔ زاروقطار روتے تھے اور جنگل میں ادھر ادھر دوڑتے پھر تے تھے ۔ تمام معاصی گذشتہ سے تو بہ کی ۔ جس جس کا مال لو ٹا تھا اور اسے آپ جانتے تھے فرداً فرداً اس کے پاس پہنچے ۔ مال واپس کرتے اور قصور معاف کر اتے ۔ انہی میں ایک شقی القلب یہودی بھی تھا وہ کسی طر ح معاف کرنے پرراضی نہ ہو تا تھا ۔ پہلے اس نے ریت کے ایک بڑے ٹیلے کو اٹھا کر پھینک دینے کی شرط عائد کی، جو ایک ہوائے غیبی سے راتو ں رات ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوگیا ۔ پھر بو لا اچھا میں قسم کھا چکا تھا کہ جب تک میرا مال نہ دے گا میں معاف نہ کروں گا ۔ میرے سرہانے کی طرف اشرفیو ں کی تھیلی رکھی ہوئی ہے وہ نکال کرمجھے دے دیجئے ۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے اسی وقت تھیلی نکال کراس کے حوالے کی ۔ یہودی یہ دیکھ کر فوراً مسلمان ہو گیا بولا میں نے توراة میں دیکھا ہے کہ جو شخص سچی توبہ کر تا ہے وہ اگر مٹی میں ہا تھ ڈالے تو سونا ہو جاتی ہے۔میں نے اسی آزمائش کے لیے ایک تھیلی خاک سے بھر کر رکھ لی تھی ۔ اب مجھے علم ہو گیا ہے کہ تمہا ری توبہ بھی سچی ہے اور دین بھی حق ہے۔
0 comments:
Post a Comment