Saturday 25 May 2013

A Heart Touching Story

Posted by Unknown on 05:02 with No comments
میں نوکری کے سلسلے میں اپنے خاندان سے دور لاہور میں مقیم تھا۔ جب گھر والوں کی یاد ستاتی تو اپنے گائوں کی طرف بھاگتا۔ اب بھی چھٹیاں لے کر اپنے گھر جارہا تھا۔ دل چاہ رہا تھا کہ فوراً اڑ کر چلا جائوں۔ جہاں اپنی اماں کے ہاتھ کے مزیدار کھانے کھائوں۔ ابھی انہی خیالات میں ڈوبا ہو تھا کہ اچانک ٹرین کی سپیڈ کم ہوگئی اور وہ تھوڑی دور آگے جا کر رک گئی۔ پوچھنے پر معلوم ہو کہ انجن میں خرابی پیدا ہوگئی ہے جو کہ گھنٹے بھر میں ٹھیک ہوگی، چنانچہ میں بھی دوسرے مسافروں کی طرح تازہ دم ہونے کے لیے باہر نکلا۔ ٹرین کسی گائوں کے پاس رکی تھی۔ میں تھوڑا آگے بڑھا تو ایک بورڈ پر چک نمبر 35 لکھا نظر آیا۔ مجھے بھوک محسوس ہو رہی تھی۔ آس پاس دیکھا مگر کھانے پینے کی کوئی دکان نظر نہ آئی۔ پاس سے گزرتے ایک لڑکے سے پوچھا۔ اس نے سیدھے جانے کا اشارہ کیا۔ ابھی میرے پاس کافی وقت تھا۔ سو ٹہلتے ٹہلتے آگے بڑھتا رہا۔ کچھ دور ہی آگے گیا تھا کہ ایک بوڑھا آدمی دوڑتا ہوا میرے پاس آیا اور آصف آصف کہتے ہوئے مجھ سے لپٹ گیا۔

“تو آگیا نا۔ بالے دیکھ نا میرا پتر واپس آگیا ہے” میں بوکھلا گیا۔ میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا۔ وہ آدمی بدستور مجھے آصف پتر کہے جارہا تھا۔ میں نے اپنے آپ کو چھڑانے کی کوشش کی، لیکن اس شخص کی بڑھاپے میں بھی گرفت بہت مضبوط تھی۔ اتنے میں ایک اور آدمی دوڑتا ہوا آیا۔ “چاچا گھر چل” اس آدمی نے مجھے چھڑاتے ہوئے کہا۔ “نا بالے میں آصف کو گھر لے کر جائوں گا۔ تو بھی کہہ نا اسے کہ گھر چل۔ جا بالے پورے پنڈ کو بتا کہ میرا پتر آگیا ہے”
“چاچا یہ تیرا پتر نہیں ہے، کوئی اور ہے۔”
اب وہ شخص جسے بوڑھا آدمی بالا کہہ رہا تھا۔ چلا کر بولا: “تیرا آصف نہیں آئے گا، کتنی بار کہوں۔ چل چھوڑ اسے” بوڑھے کی گرفت ڈھیلی ہو گئی۔ “اچھا یہ آصف نہیں ہے۔” وہ کھوئے ہوئے انداز میں بولا۔
“اچھا پتر مجھے معاف کردے۔ میں نے تجھے تنگ کیا۔” وہ بوجھل بوجھل قدم اٹھاتا ہوا چلا گیا۔”معاف کرنا بابو جی! بیچارہ حالات کا ستایا ہوا ہے۔” اس شخص نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا۔
“نہیں کوئی بات نہیں” دراصل اس کا بیٹا آصف شہر میں رہتا ہے۔ اس شخص کا نام خیر دین ہے۔
پورا پنڈ اسے چاچا کہہ کر پکارتا ہے۔ آصف اس کا اکلوتا بیٹا ہے۔ چاچے کو اپنے پتر کو پڑھانے کا بہت شوق تھا۔ اسی لیے اس نے آصف کو شہر پڑھنے کے لیے بھیجا۔ اسے شہر کی ہوا راس آگئی۔ پڑھ لکھ کر نوکری کر لی اور اپنا گھر بھی وہیں بسالیا۔ پہلے پہل تو وہ گائوں آجاتا تھا۔ مگر شہر اور اپنے بیوی بچوں میں ایسا کھویا کہ اپنے باپ کو بالکل بھول گیا۔ اسے یہاں آئے کئی سال ہو گئے ہیں۔ چاچا اسی کے انتظار میں روز اسٹیشن کے پاس جاکر بیٹھ جاتا ہے اور جو کوئی بھی وہاں سے نیچے اترتا ہے۔ اسے اپنا بیٹا سمجھنا شروع کر دیتا ہے۔ اتنا کہہ کر وہ خاموش ہو گیا۔ “اچھا آپ کے پاس آصف کا اتا پتا ہے” میں نے کچھ سوچتے ہوئے پوچھا۔ “ہاں اس کا ایک پرانا خط میرے پاس ہے۔ میں لاتا ہوں۔ شاید اس پر لکھا ہو”، کچھ دیر بعد وہ واپس آیا۔ میں نے خط کے لفافے کو الٹ پلٹ کر دیکھا۔ پتا لکھا ہوا تھا: “تو یہ صاحب لاہور میں رہتے ہیں۔ اچھا اب میں چلتا ہوں مگر بہت جلد واپس آئوں گا، وہ بھی آصف کے ساتھ۔” اللہ آپ کو کامیابی عطا فرمائے۔ اس نے دعا دی اور میں اجازت لے کر چلا گیا۔ میری چھٹیاں ختم ہوگئیں اور میں واپس لاہور پہنچا۔ دو دن بعد میں آصف کے گھر کے باہر پہنچا۔ دو دن میں نے اس کے گھر کی نگرانی اور اہم معلومات جمع کرنے میں صرف کیے۔ اس کے تین بچے تھے، دو بیٹیاں اور ایک بیٹا۔ ان سب میں چھوٹا بیٹا تقریباً چھ سال کا لگتا تھا۔ تینوں بچے سکول جاتے تھے۔ان سب کی نقل و حمل کا مزید جائزہ لیتے ہوئے میں نے ایک منصوبہ تشکیل دیا۔ روز شام کو اس کے بچے پارک میں کھیلنے جاتے تھے ،ایک دن میں اس کے سب سے چھوٹے بیٹے کو کھلونوں اور چاکلیٹ کا لالچ دے کر اپنے ساتھ اپنے فلیٹ میں لے آیا۔اور کسی کو پتہ نہ چلنے دیا اسے کھانا کھلانے کے بعد میں نے اسے سلا دیا۔ اپنا کمرہ لاک کرنے کے بعد میں آصف کے گھر کا سماں دیکھنے چلا گیا۔ اس کے گھر کے باہر لوگوں کا رش تھا۔ میں بھی اس رش میں شامل ہوگیا۔”ہائے میرا بیٹا کہاں چلا گیا” آصف روتے ہوئے بولا۔ حوصلہ رکھیے آصف صاحب، یوں رونے سے کیا ہوگا؟ بس اللہ سے دعا کریں“ایک آدمی نے کہا”۔
میں فوراً وہاں سے نکلا اور اپنے فلیٹ میں پہنچا۔ دروازہ کھول کر اندر گیا۔ بچہ ابھی تک سو رہا تھا۔ میں نے جلدی سے آصف کے گھر کا نمبر ملایا۔
“ہیلو” وہ روندھی ہوئی آواز میں بولا۔
“گھبرائو نہیں ، تمہارا بیٹا راستہ بھول کر ادھر آگیا ہے۔ وہ میرے گھر میں ہے۔ میرا پتہ لکھ لو اور بچہ یہاں آکر لے جائو۔” یہ کہہ کر اسے میں نے اپنا پتہ لکھوایا اور فون بند کر دیا۔
جلد ہی آصف پہنچ گیا۔ میں نے اسے ڈرائنگ روم میں بٹھایا۔وہ میرا بہت شکریہ ادا کر رہا تھا اور میرا احسان مند نظر آرہا تھا
“آپ کا بچہ کتنے سال کا ہے” میں نے اس سے پوچھا۔
“چھ سال کا”
“ایک چھ سال کے بچے کے لیے اتنی تڑپ اور کبھی اس کے بارے میں سوچا ہے جس نے تمہیں پچیس سال تک پالا پوسا، لیکن جب تمہاری باری آئی تو تم چلے گئے۔ کبھی خیال کیا ہے، اس شخص کا جو بالکل تمہاری طرح بلکہ تم سے زیادہ تڑپا ہے۔”
“میں کچھ سمجھا نہیں، تم کس کی بات کر رہے ہو؟” اس نے پریشانی سے پوچھا۔”میں چک نمبر 35 کے خیردین کی بات کر رہا ہوں۔ جسے تم چھوڑ کر یوں چلے آئے۔ کبھی خیال بھی کیا اس بوڑھے شخص کا کہ وہ زندہ ہے یا مرگیا۔” پھر میں اندر سے اس کے بیٹے کو لے آیا۔
“یہ لو اپنا بیٹا، میں تمہیں احساس دلانا چاہتا تھا کہ جس طرح تم تڑپ رہے ہو، کوئی اور بھی ہے جو تمہارے لیے تڑپ رہا ہے اورآج تمہارا اسی جگہ پر انتظار کر رہا ہے۔”
جہاں سے تم اسے چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ اس سے پہلے کہ تمہارا یہ بیٹا بھی تمہیں بے آسرا چھوڑ دے اور تم بھی ہر آنے والے کے پیچھے اسے اپنا بیٹا سمجھ کر بھاگو، اس کے پاس چلے جائو۔ وہ بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔
“رو مت، ابھی بھی وقت ہے۔ میں نے اسے حوصلہ دیا۔ ” اگلے دن میں اور آصف اپنے خاندان کے ہمراہ چک نمبر 35 پر پہنچے۔ آصف کا باپ وہیں بینچ پر سر جھکائے بیٹھا تھا۔
“ابا جی” اس نے ہولے سے پکارا۔ بوڑھے آدمی نے سر اٹھا کر دیکھا۔ وہ فوراً کھڑا ہو گیا۔ دونوں باپ بیٹے گلے لگ کر رونے لگے۔ آصف نے آگے بڑھ کر میرا شکریہ ادا کیا۔ “ایسا کر کے مجھے شرمندہ نہ کرو۔ میں نے کچھ بھی نہیں کیا۔ تم راستہ بھٹک گئے تھے۔ میں نے صرف راستہ دکھایا ہے۔ منزل اللہ نے دکھادی۔ جانتے ہو آصف یہ ماں باپ ہماری دوزخ بھی ہیں اور جنت بھی۔ تم نے دوزخ ٹھکرا کر جنت چن لی۔ تمہیں تمہاری جنت مبارک ہو۔ “بالا بھی وہاں موجود تھا۔ اب کی بار میں نے کہا” جا بالے پورے پنڈ کو بتا دے کہ آصف واپس آگیا ہے۔ “اس نے آنکھوں سے نمی صاف کی اور چلا گیا۔”

0 comments:

Post a Comment