Saturday 11 May 2013

فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار علامتی حد سے تجاوز کر گئی ہے۔
امریکی ریاست ہوائی میں واقع ایک تجربہ گاہ کے مطابق پہلی بار کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار 400 حصے فی دس لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ فضا کے ہر دس لاکھ مالیکیولوں میں سے 400 کاربن ڈائی آکسائیڈ کے ہیں۔
ماؤنا لوا نامی آتش فشاں میں واقع یہ سٹیشن 1958 سے اب تک کاربن ڈائی آکسائیڈ کا ریکارڈ برقرار رکھ رہا ہے۔
دنیا کی تاریخ میں گذشتہ بار 30 لاکھ برس سے 50 لاکھ برس قبل کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار 400 حصے فی دس لاکھ تک پہنچی تھی۔ اس وقت انسانوں کا وجود نہیں تھا۔
سائنس دانوں کا خیال ہے کہ اس وقت ماحول آج کے مقابلے پر خاصا گرم تھا۔
کاربن ڈائی آکسائیڈ کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ انسانوں کی پیدا کردہ سب سے اہم گرین ہاؤس گیس ہے جو حالیہ عشروں میں زمین کے درجۂ حرارت میں اضافے کا باعث رہی ہے۔
انسان کوئلہ، گیس اور تیل جلا کر یہ گیس پیدا کرتے ہیں جو فضا میں جمع ہو جاتی ہے۔
عام طور پر کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں سردیوں میں اضافہ ہو جاتا ہے جب کہ گرمیوں میں شمالی نصف کرے میں فصلِ ربیع کے موسم کے دوران یہ مقدار کم ہو جاتی ہے۔ جنگلات اور پودے اس گیس کو فضا سے جذب کر لیتے ہیں۔
اس کا مطلب ہے کہ ممکنہ طور پر آنے والے مہینوں میں گیس کی مقدار 400 حصے فی دس لاکھ سے کم ہو جائے گی، لیکن مجموعی رجحان گیس کی مقدار میں اضافے کا ہے۔
ہوائی میں واقع تجربہ گاہ کے سربراہ جیمز بٹلر نے بی بی سی نیوز کو بتایا، ’ کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار ہر گھنٹے، روزانہ اور ہر ہفتے بدلتی رہتی ہے۔‘
"400 حصے کی مقدار کی بذاتِ خود کوئی خاص اہمیت نہیں ہے۔ تاہم اس سے موقع ملتا ہے کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کی بڑھتی ہوئی مقدار کو نشان زد کیا جا سکے، اور اس کے ماحول پر اثرات پر بحث ہو سکے۔"
برطانوی ماحولیاتی سائنس دان پروفیسر جوآنا ہیگ
وہ کہتے ہیں، ’یہ پہلا موقع ہے کہ ماؤنا لوا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار 400 حصے فی دس لاکھ سے متجاوز ہوئی ہے۔‘
قدیم زمانے میں فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کو ناپنے کے لیے اضافی طریقے استعمال کیے جاتے ہیں، جیسے انٹارکٹیکا کی برف میں پھنسے بلبلوں کے اندر موجود ہوا کا جائزہ لینا۔
ان کی مدد سے گذشتہ آٹھ لاکھ برسوں میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار جانچی جا سکتی ہے۔ اس دوران کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار 200 اور 300 حصے فی دس لاکھ رہی ہے۔
برطانوی ماحولیاتی سائنس دان پروفیسر جوآنا ہیگ کہتی ہیں، ’400 حصے کی مقدار کی بذاتِ خود کوئی خاص اہمیت نہیں ہے۔ تاہم اس سے موقع ملتا ہے کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کی بڑھتی ہوئی مقدار کو نشان زد کیا جا سکے، اور اس کے ماحول پر اثرات پر بحث ہو سکے۔‘

0 comments:

Post a Comment