آج ایک تاریخی دن جب دنیا نے اک ایسی جنگی حکمت عملی دیکھی، جس پر وہ آج بھی انگشت بدنداں ہے۔ 1453ء میں محاصرۂ قسطنطنیہ کے دوران سلطان محمد فاتح نے بحری جہازوں کو خشکی پر چلوا دیا۔
آبنائے باسفورس سے شہر قسطنطنیہ کے اندر جانے والی خلیج "شاخ زریں" کے دہانے پر بزنطینی افواج نے اک زنجیر لگا رکھی تھی، جس کی وجہ سے عثمانی بحری جہاز شہر کی فصیل کے قریب نہ جا سکتے تھے۔ سلطان نے شہر کے دوسری جانب غلطہ کے علاقے سے جہازوں کو خشکی پر سے گزار کر اس خلیج میں اتارنے کا عجیب و غریب منصوبہ پیش کیا اور آج ہی کے روز یعنی 22 اپریل کو عثمانیوں کے عظیم جہاز خشکی پر سفر کرتے ہوئے شاخ زریں میں داخل ہو گئے۔
سلطان کے اس خیال کو حقیقت بنانے کے لیے عثمانی افواج نے خشکی پر راستہ بنایا اور درختوں کے بڑے تنوں پر چربی مل کر جہازوں کو ان پر چڑھا دیا گیا۔ علاوہ ازیں موافق رخ سے ہوا کی وجہ سے جہازوں کے بادبان بھی کھول دیے گئے اور رات ہی رات میں عثمانی بحری بیڑے کا ایک قابل ذکر حصہ شاخ زریں میں منتقل کر دیا۔ صبح قسطنطنیہ کی فصیل پر کھڑے بزنطینی فوجی آنکھیں ملتے رہ گئے کہ آیا یہ خواب ہے یا حقیقت کہ زنجیر اپنی جگہ قائم ہے اور عثمانی جہاز شہر کی فصیل کے قریب کھڑے ہیں؟
بہرحال، یہ حکمت عملی قسطنطنیہ کی فتح میں سب سے اہم رہی کیونکہ اسی کی بدولت عثمانیوں کو جنگ میں پہلی بار حریف پر نفسیاتی برتری حاصل ہوئی۔ بعد ازاں 29 مئی کو انہوں قسطنطنیہ کو فتح کر لیا اور صدیوں کی کشت و خون کا حاصل "اسلام بول" امت مسلمہ کا مرکز و محور بن گیا۔
زیر نظر تصویر اس تاریخی واقعے کی عکاسی کرتی ہے۔ جسے معروف اطالوی مصور فاؤسٹو زونارو نے 1908ء میں بنایا تھا۔
0 comments:
Post a Comment