Thursday 16 May 2013

پشاور کے ایک وکیل نے پشاور ہائی کورٹ میں یوٹیوب پر پابندی کو چیلنج کر دیا ہے، جس موقف اختیار کیا گیا ہے کہ وڈیو شیئرنگ ویب سائٹ پر پابندی کا خاتمہ ہونا چاہیے۔
درخواست گزار میاں محب اللہ کاکاخیل نے کہا کہ یوٹیوب تک رسائی عوام کے وسیع تر مفاد میں ہے۔
انہوں نے کہا کہ متعلقہ ادارے پی ٹی آئی اور وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی گستاخانہ مواد پر مشتمل مخصوص یو آر ایلز کو بلاک کرنے میں ناکام رہے ہیں – اس کے باوجود کہ انہوں نے متعدد بار اس کا دعویٰ کیا – اور پوری ویب سائٹ کو بلاک کرنا مسئلے کا حل نہیں ہے۔
درخواست گزار کا موقف ہے کہ یوٹیوب ان گنت کارآمد وڈیوز رکھتی ہے جو کسی اور ذرائع سے حاصل نہیں ہو سکتیں۔ انہوں نے کہا کہ یوٹیوب پر موجود وڈیوز میں موسیقی، کھیل، فلموں، خبروں، جنگلی حیات، بچوں کے لیے کارٹونز اور اسلامی اسکالرز کے دروس کے علاوہ تاریخ، ثقافت اور مذہبی اہمیت کی حامل وڈیوز شامل ہیں۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ یوٹیوب تعلیمی مواد کی حامل واحد ویب سائٹ تھی، جو طلبہ اور شہریوں کو نئے سافٹویئر، روبوٹس، مکینیکل انجینئرنگ، سافٹویئر انجینئرنگ، ہارڈویئر انسٹال کرنے، موبائل فون کے جدید استعمال اور سافٹویئر کی انسٹالیشن کی تکنیک سیکھنے پر آمادہ کرتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ بیشتر سافٹویئر یہاں فراہم نہیں کیے جاتے، اور اگر دستیاب ہوں بھی ہو تو بھاری قیمت طلب کی گئی۔
درخواست گزار نے کہا کہ یوٹیوب پر پابندی بنیادی انسانی حقوق اور معلومات تک رسائی کے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
مقدمے میں چیئرمین پی ٹی اے اور وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی کو فریق بنایا گیا ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان میں 17 ستمبر 2012ء کو یوٹیوب پرپابندی عائد کی گئی تھی جب ویب سائٹ پر موجود گستاخانہ وڈیوز نے دنیا بھر میں مسلمانوں کے جذبات کو بھڑکایا۔ پابندی کے دوران پاکستانی حکام نے متعدد بار گوگل سے رابطہ کیا اور پاکستان میں وڈیوز بلاک بھی کیں، لیکن ناکام رہے۔ 

0 comments:

Post a Comment