Saturday 11 May 2013


کراچی: تمام مختلف حلقوں کی جانب سے آج 11 مئی کے عام انتخابات کو پاکستانی تاریخ کے انتہائی اہم الیکشن قرار دیا جارہا ہے۔
اس بار ایک اہم چیز جو نظر آرہی ہے وہ نوجوانوں کا جوش و خروش ہے، عمران خان کی کرشماتی شخصیت نے کالج یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات سے لیکر گھریلو خواتین تک کو الیکشن کی جانب کھینچ لیا ہے۔ عمران کی میگا الیکشن مہم تو حاضرین کی تعداد کے لحاظ سے بہت متاثر کن رہی ہے لیکن یہ سوال اہم ہے کہ کیا عمران خان کے جلسوں میں آنے والے تحریک انصاف کے پرستار اور عمران خان کے ’’فینز‘‘ پولنگ ڈے پر اپنی پسندیدہ شخصیت سے انصاف کرسکیں گے؟۔ عمران خان نے تحریک انصاف کو عوام میں مقبول کرانے کیلیے کلیدی کردار ادا کیا ہے، شب و روز جلسے جلوسوں اور خطابات کے ساتھ انھوں نے اپنے سیاسی کیریئر کی اچھی اننگ کھیلی لیکن  آخری و فیصلہ کن شاٹ عوام ہی لگائیں نگے۔
14ویں پارلیمنٹ بنانے کیلیے پولنگ کے حوالے سے سیاسی تجزیوں، تبصروں اور میڈیا رپورٹس کے علاوہ مختلف سیاسی پارٹیوں کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ اس بار بھی کوئی بھی جماعت واضح اکثریت حاصل نہیں کرپائے گی اور حکومت بنانے کیلیے دو یا تین جماعتوں کو ہاتھ ملانا ہوگا۔ صرف ایک چیز ان انتخابات میں نئی ہے اور وہ ہے تحریک انصاف ، گوکہ تحریک انصاف نے گذشتہ انتخابات میں بھی حصہ لیا تھا لیکن گذشتہ چند برسوں میں عمران خان نے ملک بھر میں اپنی پارٹی کو ایسا موبلائز کیا ہے کہ وہ لوگ بھی جن کے حلقوں میں عمران خان کے امیدواروں کی پوزیشن چوتھے یا پانچویں نمبر پر ہے، تحریک انصاف کے حامی نظر آتے ہیں۔11 مئی کے الیکشن کیانتخابی نتائج اور اس کے بعد بننے والی حکومت میں تحریک انصاف کے ووٹروں کا کردار بہت اہمیت حاصل کرگیا ہے۔
گذشتہ انتخابات کی نسبت اس بار پی ٹی آئی ایک اہم سیاسی حیثیت میں سامنے آئی ہے اور اگر پارٹی قیادت عمران کے مداحوں کو پولنگ اسٹیشنوں تک لے آئی تو انتخابی منظر نامے کی صورتحال بدل جائے گی اور نتائج پر بھی اس کے اثرات ہوں گے۔ ملک بھر کی طرح اس وقت کراچی میں بھی مختلف علاقوں اورشاہراہوں پر پی ٹی آئی کے حامی کافی پرجوش اور پرامید ہیں۔ عمران خان ملک کی بڑی پارٹیوں کی پالیسیوں کو مسلسل تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں لیکن یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ عمران خان کی تحریک انصاف بھی ملک کی دیگر جماعتوں سے منفرد نہیں رہی کیونکہ  جہاں پیپلزپارٹی کی سیاست کا محور  بھٹوکی شخصیت اور بھٹو خاندان ہے، جیسے مسلم لیگ ن شریف فیملی کے بغیر کچھ نہیں، متحدہ قومی موومنٹ کے ووٹر الطاف حسین کی اپیل پر ووٹ دیتے ہیں، اسی طرح تحریک انصاف کے ووٹر بھی اپنے حلقوں کے امیدوارں کو زیادہ نہیں جانتے لیکن وہ عمران خان کے ’’فین‘‘ کی حیثیت سے ضرور بلے پر مہر لگانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
ہار جیت سے قطع نظر یہ بات بھی اہمیت کی حامل ہے کہ ملک بھر میں تحریک انصاف کتنے ووٹ حاصل کرتی ہے اور اہم حلقوں میں اس کا نمبر کونسا رہتا ہے؟۔ یہ بات تو طے ہے کہ کراچی میں چند ایک نشستوں کے علاوہ اکثریتی حلقوں میں متحدہ قومی موومنٹ کی پوزیشن انتہائی مضبوط ہے جبکہ پیپلزپارٹی بھی گذشتہ الیکشن میں شہر قائد سے حاصل کی گئی  سیٹیں جیت سکتی ہے، ایسی صورت حال میں کراچی میں تحریک انصاف کا کوئی بریک تھرو بظاہر نظر نہیں آتا اور اگر ایسا ہوا تو یہ قومی سیاسی تاریخ کا بھی بہت بڑا ’’بریک تھرو‘‘ ہوگا۔

0 comments:

Post a Comment