Thursday, 2 May 2013

My Mother!

Posted by Unknown on 21:48 with No comments
میری ماں

میری والدہ صاحبہ بڑی عبادت گزار اور اللہ پر توکل کرنے والی، بڑی سلیقہ شعار اور با ہمت خاتون تھیں۔ والد صاحب کی تنخواہ بہت کم تھی، لیکن والدہ صاحبہ نے اس مختصر تنخواہ میں بھی ہم بہن بھائیوں کی تعلیم و تربیت کی اور کبھی اللّٰہ سبحانہ‘ و تعالیٰ کی ناشکری نہیں کی۔ میں اپنی والدہ صاحبہ کے چند واقعات لکھ رہا ہوں، جن سے ان کی عظیم شخصیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ میرے والد صاحب ڈاک خانے میں ملازم تھے۔ بڑی قلیل تنخواہ تھی، بس گزر بسر کسی نہ کسی طریقے سے ہو رہی تھی۔ والدہ صاحبہ اکثر والد صاحب سے کہتی تھیںکہ اگر کسی مہینے گھر کے اخراجات سے کچھ پیسے بچ جائیںتو گھر کا فلاں فلاں کام ہو جائے، لیکن اخراجات ہر مہینے کسی نہ کسی وجہ سے بڑھ جاتے تھے۔
ایک روز والد صاحب شام کو دفتر سے گھر آئے اور والدہ صاحبہ کو خاموشی سے ایک بڑی رقم دی اور کہا ’’یہ رقم اپنے استعمال میں لائو اور جتنے بھی کام رکے ہوئے ہیں، کر لو۔ یہ سب رقم تمہاری ہے۔ ماضی کے جتنے بھی گلے شکوے ہیں اور خواہشات ہیں، اس سے پوری کر لو۔‘‘
والدہ صاحبہ نے خوشی سے پوچھا ’’اتنی بڑی رقم کہاں سے آئی ہے؟‘‘
والد صاحب نے بتایا ’’آج ایک صاحب آئے تھے، کافی دیر میرے پاس بیٹھے رہے، جب جانے لگے تو یہ رقم میرے پاس بھولے سے چھوڑ گئے۔ میں نے یہ رقم چھپا لی۔ کچھ دیر بعد وہ صاحب گھبرائے ہوئے میرے پاس آئے اور کہا ’’ میں اپنا ایک تھیلا جس میں کچھ رقم تھی، یہاں تو نہیں بھول گیا؟‘‘
میں نے کہا ’’آپ کہیں اور بھول آئے ہوں گے۔ تو وہ صاحب چلے گئے۔‘‘
والدہ صاحبہ کو جب یہ معلوم ہوا کہ یہ رقم اس طریقے سے آئی ہے تو ایک دم ان کا رنگ غم اور پریشانی سے سفید ہو گیا۔ وہ والد صاحب سے کہنے لگیں ’’تم نے اتنی بڑی بے ایمانی کیسے کی؟‘‘ یہ بات تمہیں زیب نہیں دیتی۔ میں یہ رقم نہیں لوں گی، اس رقم کو واپس کر کے آئو۔‘‘
والد صاحب نے کہا ’’اس عمل کا گناہ اور ثواب میرے ذمے ہے، بس تم اس رقم کو استعمال کرو۔‘‘
والدہ صاحبہ نے بڑی سختی سے انکار کیا اور کہا ’’میں یہ رقم استعمال نہیں کروں گی۔ میرا ضمیر گوارا نہیں کرتا۔‘‘
جب والد صاحب نے دیکھا کہ وہ بہت زیادہ پریشان ہو گئی ہیں توکہا ’’میں مذاق کر رہاتھا اور تمہیں آزمانا چاہتا تھا۔ دراصل آج ڈاک خانے کی گاڑی نقد رقم لینے نہیں آئی۔ اس وجہ سے میں یہ رقم گھر لے آیا کہ کہیں ڈاک خانے سے رقم چوری نہ ہو جائے۔ یہ سرکاری امانت ہے۔ صبح واپس لے جائوں گا۔‘‘ والدہ صاحبہ نے سنا تو سکھ کا سانس لیا اور رقم حفاظت سے رکھ لی۔

0 comments:

Post a Comment