وَاعْلَمُواْ
پارے کی ابتداء میں بتایا گیا ہے ’’مال
غنیمت‘‘ میں سے پانچواں حصہ بیت المال کے لئے نکال کر باقی چار خمس مجاہدین
میں تقسیم کردیئے جائیں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے پہلے سے کسی تیاری کے بغیر
غزوہ بدر میں کفر و اسلام کو مدمقابل لانے کی حکمت بیان فرمائی کہ اگر تم
مقابلہ کا وقت مقرر کرلیتے تو اس بات کا قوی امکان تھا کہ مسلمان اپنی
تعداد و اسلحہ کی قلت کے پیش نظر پس و پیش کا مظاہرہ کرتے یا کافر مرعوب
ہوکر مسلمانوں کے مقابلہ سے گریز کرتے۔ لیکن اللہ تعالیٰ مسلمانوں اور
کافروں سے جنگ چاہتے تھے تاکہ بے سروسامانی کے باوجود انہیں کامیاب کرکے حق
و باطل کا فرق واضح کردیں اور جو مسلمان ہونا چاہے علی وجہ البصیرت ہو اور
جو کافر رہنا چاہے وہ بھی سوچ سمجھ کر ہو۔ اس کے بعد جہاد میں ثابت قدمی
کا مظاہرہ کرنے اور ذکر الٰہی میں مشغول رہنے کی تلقین ہے، اس بات کا بیان
ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے ساتھ باہمی اختلاف و نزاع سے بھی
بچنا ضروری ہے۔ ورنہ ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا۔ کافر ریاکاری اور تکبر
کے ساتھ میدان میں اس لئے نکلے تھے تاکہ اہل ایمان کو اللہ کے راستہ سے
روکیں اور شیطان انسانی شکل میں ان کی حوصلہ افزائی کررہا تھا مگر جب اس نے
فرشتوں کی شکل میں اللہ کی مدد اترتی ہوئی دیکھی تو بھاگ اٹھا اور کہنے
لگا کہ میں جس صورتحال کا مشاہدہ کررہا ہوں وہ تمہیں نظر نہیں آرہی ہے۔ اس
وقت بعض منافق اور دلوں میں مرض رکھنے والے لوگ یہ کہہ رہے تھے، ان
مسلمانوں کو ان کے دین نے دھوکے میں ڈال رکھا ہے اور انہوں نے اللہ کے
بھروسہ پر اتنا بڑا خطرہ مول لے لیا ہے۔ اللہ فرماتے ہیں کہ ہم اپنے پر
توکل کرنے والوں کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں اور انہیں کامیابی عطا فرمایا
کرتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرعون اور اس سے پہلے کافروں کے عبرتناک
انجام کو بیان کیا اور بتایا کہ کافر بھی اسی صورتحال سے دوچار ہوکر رہیں
گے۔ اس کے بعد قوموں کے عروج و زوال کا ناقابل تردید ضابطہ بیان فرمایا۔
اللہ کسی قوم کو اس وقت تک زوال پذیر نہیں کرتے جب تک وہ اپنی عملی زندگی
میں انحطاط کا شکار نہ ہوجائیں۔ حضرت محمد علیہ السلام پر ایمان نہ لانے
والے لوگ بدترین جانور ہیں۔ یہودیوں نے اس موقع پر میثاق مدینہ کی مخالفت
کرتے ہوے مشرکین مکہ کی حمایت کی تھی۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :عہد شکنی
کرنے والوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنا چاہئے تاکہ دوسروں کو عبرت حاصل
ہو اور خیانت کرنے والوں کے ساتھ کئے گئے معاہدوں کی پاسداری لازمی نہیں رہ
جاتی ایسے معاہدے توڑ دینے چاہئیں۔ کافر یہ نہ سمجھیں کہ وہ بچ نکلنے میں
کامیاب ہوجائیں گے وہ اللہ کو عاجز نہیں کرسکتے۔ مسلمانوں کو حکم دیا گیا
ہے کہ دشمنان اسلام پر رعب ڈالنے کے لئے تم لوگ جس قدر ہوسکے قوت اور مضبوط
گھوڑے تیار رکھو۔ اللہ کے راستہ میں تم جو بھی اخراجات کروگے اللہ تمہیں
واپس کردیں گے۔ تم کافروں کے مقابلہ میں کسی قسم کی کمزوری کا مظاہرہ نہ
کرنا البتہ اگر وہ تمہارے ساتھ صلح کرنا چاہیں تو پھر صلح کرلینا۔ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ اللہ نے اپنی مدد اور ایمان والوں کی
قوت سے آپ کو مضبوط کیا ہوا ہے اور ایمان والوں کو اللہ تعالیٰ نے محض
اپنے فضل و کرم سے باہم شیر وشکر بناکر آپ کے گرد جمع کردیا ہے۔ ساری دنیا
کا مال دولت خرچ کرکے بھی آپ انہیں اس طرح جمع نہیں کرسکتے تھے جس طرح
اللہ نے انہیں جمع کردیا ہے۔ جہاد میں کامیابی کے لئے اللہ کی مدد اور
مسلمانوں کا تعاون آپ کے لئے بہت کافی ہے۔ خود بھی جہاد کریں اور اہل
ایمان کو بھی جہا دکی ترغیب دیں۔ ابتداء میں جب مسلمانوں کی تعداد کم تھی
تو، اگر مسلمانوں اور کافروں میں ایک اور دس کا تناسب ہوتو میدان سے ہٹ
جانے کو فرار عن الزحف اور گناہ کبیرہ قرار دیا گیا پھر جب تعداد زیادہ
ہوگئی تو ایک اور دو کا تناسب باقی رکھا گیا اور اس سے زیادہ ہونے کی صورت
میں میدان چھوڑ دینے کی اجازت دے دی گئی۔
غزوہ بدر میں ستر کافر قتل ہوئے اور ستر ہی گرفتار ہوئے تو قیدیوں کا مسئلہ درپیش آگیا۔ اس سلسلہ میں دو رائے سامنے آئیں کہ مسلمانوں کا رعب پیدا کرنے کے لئے انہیں قتل کردیا جائے یا ان کے ایمان لانے کی امید پر فدیہ لے کر رہا کردیا جائے۔ دوسری رائے کو اختیار کیا گیا مگر اس میں شبہ تھا کہ یہ قیدی رہائی کے بعد پھر اسلام کے خلاف استعمال ہوسکتے ہیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس رائے کے مطابق فیصلہ پسند نہیں فرمایا مگر بعد کے حالات نے ثابت کردیا کہ اس سے اسلام کو کوئی نقصان نہیں پہنچا اس لئے اللہ نے فدیہ کا فیصلہ کرنے والوں کو کوئی سزا نہیں دی۔
اس کے بعد ہجرت و نصرت کا حکم بیان کیا کہ جب کسی علاقہ میں رہ کر اپنا ایمان و عمل بچانا مشکل ہوجائے تو رشتہ داروں اور وطن کی محبت میں وہاں رہنے کی اجازت نہیں بلکہ وہاں سے ہجرت کرکے اپنے ایمانی رشتہ داروں کے ساتھ جاکر مقیم ہوجانے کا حکم ہے۔ ایمانی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ہجرت نہ کرنے پر بہت سخت وعید سنائی گئی کہ اس سے دنیا میں فتنہ و فساد پھیل جائے گا۔
غزوہ بدر میں ستر کافر قتل ہوئے اور ستر ہی گرفتار ہوئے تو قیدیوں کا مسئلہ درپیش آگیا۔ اس سلسلہ میں دو رائے سامنے آئیں کہ مسلمانوں کا رعب پیدا کرنے کے لئے انہیں قتل کردیا جائے یا ان کے ایمان لانے کی امید پر فدیہ لے کر رہا کردیا جائے۔ دوسری رائے کو اختیار کیا گیا مگر اس میں شبہ تھا کہ یہ قیدی رہائی کے بعد پھر اسلام کے خلاف استعمال ہوسکتے ہیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس رائے کے مطابق فیصلہ پسند نہیں فرمایا مگر بعد کے حالات نے ثابت کردیا کہ اس سے اسلام کو کوئی نقصان نہیں پہنچا اس لئے اللہ نے فدیہ کا فیصلہ کرنے والوں کو کوئی سزا نہیں دی۔
اس کے بعد ہجرت و نصرت کا حکم بیان کیا کہ جب کسی علاقہ میں رہ کر اپنا ایمان و عمل بچانا مشکل ہوجائے تو رشتہ داروں اور وطن کی محبت میں وہاں رہنے کی اجازت نہیں بلکہ وہاں سے ہجرت کرکے اپنے ایمانی رشتہ داروں کے ساتھ جاکر مقیم ہوجانے کا حکم ہے۔ ایمانی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ہجرت نہ کرنے پر بہت سخت وعید سنائی گئی کہ اس سے دنیا میں فتنہ و فساد پھیل جائے گا۔
سورہ توبہ
مدنی سورت ہے۔ ایک سو انتیس ۱۲۹ آیتوں اور سولہ رکوع پر مشتمل ہے۔ اس میں جہاد سے پیچھے رہ جانے والے تین مخلص مسلمانوں کی توبہ قبول ہونے کا اعلان ہے۔ اس لئے اس کا نام توبہ رکھا گیا ہے اور اس سورت کا مضمون پہلی سورت سے جہاد کے حوالہ سے ملتا جلتا ہے اور اس میں کفار کے لئے مہلت ختم کرکے کھلا ہوا اعلان جنگ ہے اس لئے اس کے شروع میں بسم اللہ نہیں لائی گئی۔
یہ سورت غزوہ تبوک کے بعد واپسی پر نازل ہوئی۔ جہاد اور زکوٰۃ کے حوالہ سے منافقین کی خباثتوں کی نشاندہی کی گئی ہے اور ان کے مکروہ چہرے سے اسلام کا نقاب ہٹاکر انہیں معاشرے میں ظاہر کیا گیا ہے۔ صلح اور امن کے معاہدوں سے کافروں نے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا اور ان کے اسلام دشمن طرز عمل میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، لہٰذا ان معاہدوں کو چار مہینہ کی مہلت دے کر ختم کرنے کا اعلان کیا جارہا ہے اور حکم دیا جارہا ہے کہ جس طرح یہ کافر مسلمانوں کے خلاف جنگ کرنے اور انہیں نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ اسی طرح مسلمانوں کو بھی چاہئے کہ کافر جہاں بھی ملیں انہیں تہِ تیغ کریں۔ اللہ ان کافروں پر آسمان سے کوئی عذاب اتارنے کی بجائے میدان جہاد میں مسلمانوں کے ہاتھ سے قتل کرانا چاہتے ہیں تاکہ انہیں سزا بھی مل جائے، یہ ذلیل و رسوا بھی ہوں اور مسلمانوں کے دلوں کا غصہ بھی اتر جائے اور بعض کافر اس عبرتناک انجام سے سبق حاصل کرکے اسلام قبول کرنے کا شرف حاصل کرسکیں۔ دو مسلمانوں کی آپس میں گفتگو ہوئی، ایک نے کہا حضور علیہ السلام کے ساتھ جہاد میں شرکت کے بہت سے مواقع مل چکے ہیں۔ اب تو میں کعبۃ اللہ میں رہ کر عبادت کرنے اور حاجیوں کو پانی پلانے کی سعادت حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ دوسرے نے کہا کہ جہاد کے برابر کوئی دوسرا عمل نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا میں تو اللہ کے نبی کے ہمراہ جہاد کی سعادت حاصل کرتا رہوں گا۔ حضور علیہ السلام نے آیت قرآنی پڑھ کر سنائی۔ کیا تم نے کعبۃ اللہ کی عبادت اور حاجیوں کو پانی پلانے کی خدمت کو جہاد فی سبیل اللہ کے برابر سمجھ لیا ہے؟ یہ اللہ کی نگاہ میں کبھی بھی برابر نہیں ہوسکتے۔ رشتہ داریوں، کاروباری مفادات اور اپنے گھروں کو اللہ اور اس کے رسول اور جہاد پر ترجیح دینے والے اللہ کے عذاب کے لئے تیار ہوجائیں۔ ایسے فاسقوں کو اللہ ہدایت نہیں دیا کرتے۔ اس کے بعد غزوۂ حنین اور اس میں کثرت تعداد کے باوجود مسلمانوں کے نقصان اٹھانے اور پھر اللہ کی مدد سے کامیاب ہونے کا تذکرہ ہے۔ آئندہ کے لئے کافروں کے حرم شریف میں داخلے پر پابندی کا قانون بیان کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ توحید و آخرت پر ایمان نہ لانے والے اور اسلامی نظام حیات سے پہلوتہی کرنے والے اسلامی معاشرہ کے افراد بن کر نہیں رہ سکتے۔ انہیں ذلت و رسوائی کے ساتھ جزیہ ادا کرکے اپنے رہنے کے لئے جواز پیدا کرنا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کے لئے اولاد ثابت کرنے کے عقیدہ کی تردید ہے اور بتایا گیا ہے کہ کسی مذہبی رہنما کو اتنا تقدس نہیں دیا جاسکتا کہ اللہ کی بجائے اسی کو معبود بنالیا جائے اور عبادت سے مراد احکام کی پابندی ہے۔ مذہبی رہنمائوں کے احکام اسی وقت تک قابل عمل ہیں جب تک وہ قوم کو آسمانی وحی کی روشنی میں رہنمائی فراہم کرتے رہیں۔ اس کے بعد مال و دولت اور سونے چاندی میں اللہ کے احکام کی ادائیگی نہ کرنے والوں کے لئے وعید ہے کہ سونا چاندی جہنم میں تپاکر انہیں داغا جائے گا۔ پھر مہینوں اور تاریخوں میں تبدیلی کرکے حرام کو حلال کرنے کی کافرانہ حرکت پر تنبیہ کی گئی ہے۔ پھر جہاد کے لئے نہ نکلنے پر وعید بیان کی ہے اور دردناک عذاب کا پیغام دیا گیا ہے اور اس اٹل حقیقت کا اعلان ہے کہ اسلام ہمیشہ غالب رہے گا اور کفر کو اللہ نے مغلوب کرنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے۔ تبوک کے پرمشقت اور طویل جہادی سفر میں شریک نہ ہونے والے منافقین نے امام المجاہدین صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھی مجاہدین پر مختلف اعتراض اٹھائے تھے۔ کوئی کہتا تھا کہ خوبصورت رومی عورتوں کی وجہ سے ہم بدنظری کے فتنہ میں پڑسکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جہاد سے انکار بڑا فتنہ ہے، جس میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ کوئی جہاد کے لئے چندہ اور صدقات جمع کرنے پر اعتراض کرتا، کوئی حضور علیہ السلام کی گستاخی کرتے ہوئے کہتا کہ یہ سنی سنائی باتوں پر عمل کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ چندہ پر اعتراض کرنے والوں کو اگر اس میں سے ’’مال‘‘ مل جائے تو ان کا سارا اعتراض ختم ہوجائے گا اور سنی سنائی باتوں کے حوالہ سے فرمایا کہ وہ اللہ سے سنی ہوئی باتوں پر عمل کرتے ہیں اور ایمان و رحمت کے پھیلانے اور بدی کے راستہ میں رکاوٹ پیدا کرنے والے ہیں۔ ان کے لئے باغات اور نہریں ہیں، جن میں ہمیشہ رہیں گے۔ کفار و منافقین کے خلاف جہاد جاری رکھنے کا دوٹوک اعلان کیا گیا ہے۔ ایک شخص نے حضور علیہ السلام سے دعاء کرائی کہ اللہ مجھے مال و دولت دے تو میں فی سبیل اللہ خرچ کروں گا۔ جب اس کے پاس بہت مال و دولت ہوگیا تو اس نے زکوٰۃ دینے سے بھی انکار کردیا۔ اس کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ سے صدقہ و خیرات کا عہد و پیمان کرتے ہیں اور جب اللہ انہیں عطاء کردے تو وہ بخل کرتے ہیں اور صدقہ سے انکار کردیتے ہیں۔ منافقین کو ہمیشہ کے لئے مسترد کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ اگر ستر مرتبہ بھی ان کے لئے معافی کی درخواست کریں گے تو اللہ تعالیٰ ہرگز انہیں معاف نہیں کریں گے۔ گرمی اور راستہ کی مشقت کا بہانہ بناکر یہ لوگ جہاد میں شریک نہیں ہوئے اور رسول اللہ کی مخالفت کرکے خوش ہورہے ہیں۔ ان سے کہہ دو کہ جہنم کی گرمی بہت سخت ہے اور جہاد پر نہ جانے کی وجہ سے تمہیں جہنم میں جانا پڑے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو منافقین کا جنازہ پڑھنے اور ان کی قبروں پر جاکر دعاء مغفرت کرنے سے منع کردیا، نبی پیغمبرانہ تقاضوں کے مطابق مسلمانوں کے لئے نرم دل ہیں اور نبی کے گستاخوں اور دل آزاری کرنے والوں کے لئے دردناک عذاب تیار ہے۔ ایمان والے کبھی جہاد سے نہیں بھاگتے۔ جہاد سے راہِ فرار تو بے ایمان اور کافر ہی اختیار کرتے ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ ہم بھی جہاد کے لئے نکلنے کو تیار ہیں۔ تیاری کا مطلب تو یہ ہے کہ تربیت اور اسلحہ کے ساتھ تیار ہوں (جبکہ ان لوگوں نے ایسی کوئی تیاری نہیں کی)۔ ان منافقین کو بدعملی اور دوغلی پالیسی کے پیش نظر آئندہ بھی جہاد کے سفر میں شریک نہیں کیا جائے گا۔
آپ نے انہیں جہاد سے پیچھے رہ جانے پر معافی دے دی ہم اس بات پر آپ کو معاف کررہے ہیں ورنہ آپ کو ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا تاکہ مخلص ایمان والے اور منافق سامنے آجاتے۔ پھر زکوٰۃ و صدقات کے مستحقین کی آٹھ اقسام کو بیان کیا ہے کہ فقراء، مساکین، زکوٰۃ وصول کرنے والے عامل، مؤلفۃ القلوب، غلاموں کو آزاد کرانے، قرض دار، مسافر اور جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ پھر منافقین کے متعلق بتایا کہ برائی کی نشر و اشاعت اور نیکی کے راستہ میں رکاوٹ ہیں ان کے لئے جہنم کی سزا ہے جبکہ مؤمنین ایک دوسرے کے دوست، نیکی پھیلانے والے ہیں جبکہ منافقین نے جہاد کے مقابلہ میں گھروں میں رہنے کو ترجیح دے کر نسوانیت کا مظاہرہ کیا ہے۔ اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگادی ہے۔ اگر کوئی شرعی معذور، غربت و مسکنت کا شکار جہاد سے پیچھے رہ گیا تو کوئی حرج نہیں ہے کچھ لوگ سواری طلب کرنے کے لئے حضور علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے، آپ کے پاس سواری کا انتظام نہ پاکر ان کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے کہ وہ سواری نہ ہونے کی وجہ سے جہاد کے عظیم الشان عمل سے محروم ہوجائیں گے۔ اللہ نے ان کی تعریف کی اور صاحبِ حیثیت کے سفر خرچ کی گنجائش رکھنے کے باوجود جہاد کے لئے نہ جانے پر مذمت کی گئی ہے۔
0 comments:
Post a Comment