وَلَوْ أَنَّنَا
قریش مکہ کا کہنا تھا کہ آپ صلی اللہ
علیہ وسلم مرنے کے بعد زندہ ہونے کا جو دعویٰ کرتے ہیں اس کا عملی ثبوت پیش
کرنے کے لئے عرب کے بڑے دادا قُصَی (جوکہ نیک اور محترم شخصیت تھے) کو
زندہ کرکے دکھا دیں، وہ اگر آپ کی تصدیق کردیں تو ہم آپ پر ایمان لے
آئیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرمایا اگر ہم ان پر فرشتے نازل
کردیں جو ان سے باتیں کرنے لگیں اور آج تک مرنے والی ہر چیز کو زندہ کرکے
ان کے سامنے اکٹھا کردیں تب بھی یہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے۔ پھر حضور صلی
اللہ علیہ وسلم کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ صرف آپ ہی کی مخالفت نہیں
ہورہی ہے بلکہ آپ سے پہلے انبیاء علیہم السلام کو بھی ایسی ہی صورتحال سے
سابقہ پڑتا رہا ہے۔ شیطان کے زیر اثر ہونے کی وجہ سے ہر نبی کے مخالفین
ایسے ہی بنا سنوار کر دھوکہ دینے کے لئے ہر دور میں اعتراضات کرتے رہے ہیں
مگر ایسی باتوں سے بے ایمان، منکرین آخرت ہی متاثر ہوتے ہیں۔ اللہ اگر
چاہتے تو یہ ایسی نازیبا حرکتیں نہ کرتے۔ آپ انہیں ان کے حال پر چھوڑ کر
اپنے کام میں لگے رہئے، آپ ان سے کہہ دیجئے کہ جب اللہ نے واضح کتاب نازل
فرمادی تو میں فیصلہ کرنے کے لئے کسی اور کو کیوں تلاش کروں؟ تیرے رب کی
باتیں سچائی اور انصاف کی آئینہ دار ہیں انہیں کوئی تبدیل نہیں کرسکتا۔
لوگوں کی بے دلیل باتوں کو مان کر انسان گمراہ ہوسکتاہے، اللہ ہدایت یافتہ
اور گمراہوں کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔ مردار اور ذبیحہ میں فرق کرنے پر
مشرکین کہتے تھے کہ اللہ کا مارا ہوا کھاتے نہیں ہو اور اپنا مارا ہوا
کھالیتے ہو۔ قرآن کریم نے اس کے جواب میں فرمایا کہ شیطان کے ایجنٹ کٹ
حجتی کے لئے اس قسم کے اعتراضات کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حلال و حرام کو
تفصیل کے ساتھ بیان کردیا ہے، لہٰذا مردار جانور کا کھانا گناہ ہے جبکہ
اللہ کا نام لے کر ذبح کیا ہوا جانور کھانا تمہارے ایمان کا تقاضا ہے۔ اگر
ان کی باتوں سے متاثر ہوگئے تو تم بھی مشرکین کے زمرے میں شمار کئے جائوگے۔
جس طرح مردہ اور زندہ برابر نہیں ہوسکتے اسی طرح کفر کے اندھیروں میں
بھٹکنے والے اور ایمان کی روشنی میں چلنے والے برابر نہیں ہوسکتے۔ جب انہیں
کوئی آیت سنائی جائے تو اسے ماننے کی بجائے یہ کہتے ہیں کہ ان آیتوں کی
وحی اللہ ہم پر کیوں نہیں اتارتا؟ اللہ بہتر جانتے ہیں کہ کس پر وحی اتارنی
ہے کس پر نہیں۔ مجرموں کو ان کے جرائم کی وجہ سے ذلت ورسوائی اور عذاب کا
سامنا کرنا پڑے گا۔ جسے اللہ ہدایت دینا چاہیں اس کا سینہ اسلام کے لئے
کھول دیتے ہیں اور جس کی گمراہی کا فیصلہ کریں اس کا سینہ تنگ کردیتے ہیں
جیسے کوئی شخص بلندی پر چڑھ رہا ہو۔
بلندی پر چڑھتے ہوئے سینہ تنگ ہونے کی مثال اعجازِ قرآنی کی معرکۃ الآراء مثال شمار ہوتی ہے۔ اس لئے کہ طب جدید کی تحقیق نے یہ ثابت کیا ہے کہ بلندی پر آکسیجن کی کمی کی وجہ سے دَم گھٹنے لگتا ہے اور سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے۔ آج سے سوا چودہ سو سال پہلے اس سائنسی حقیقت کی طرف اشارہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ یہ قرآن کسی انسان کا نہیں بلکہ اللہ رب العالمین کا کلام ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ تمام جنات و انسانوں سے قیامت کے دن باز پرس کی جائے گی اور ہر ایک کو احتساب کے عمل سے گزرنا ہوگا جبکہ یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ انسانوں کی طرح جنات بھی قرآنی تعلیمات پر عمل کرنے کے پابند ہیں، پھر یہ بتایا کہ مجرموں کی گرفت کے لئے اللہ کا ضابطہ ہے کہ ظالم کی بے خبری میں گرفت نہیں کرتے اور اللہ تعالیٰ تمام مخلوقات سے مستغنی اور رحیم ذات ہے۔ وہ اگر انسانوں کو ختم کرکے کسی دوسری قوم کو لانا چاہے تو اسے کوئی روک نہیں سکتا۔ پھر کھیتیوں اور جانوروں میں مشرکانہ رسوم و رواج کی مذمت کرتے ہوئے اسے شیطانی عمل قرار دیا ہے۔ قدرت خداوندی کا بیان ہے کہ اللہ زمین سے کیسے کیسے باغات پیدا کرتا ہے، جن میں سہارے کی محتاج بیلیں اور بغیر سہارے کے پروان چڑھنے والے پودے ہوتے ہیں۔ کھجوریں، مختلف ذائقہ والے ملتے جلتے اور غیر متشابہ پھل ہوتے ہیں۔ یہ سب انسانی خوراک اور صدقہ و خیرات کے لئے اللہ نے پیدا کئے ہیں۔ ان میں اسراف نہ کیا جائے۔ چھوٹے بڑے جانور بھی کھانے کے لئے اللہ نے پیدا کئے۔ ان کے بارے میں شیطانی تعلیمات کی پیروی نہ کریں۔ نر اور مادہ کو شمار کرکے عام طور پر آٹھ قسم کے پالتو جانور ہیں۔ بھیڑ، بکری، گائے، اونٹ۔ اللہ نے ان میں سے کسی کو حرام قرار نہیں دیا تو تم لوگ ان کے نر یا مادہ یا ان کے حمل کو حرام کیوں کرتے ہو؟ مشرک کہتے ہیں کہ ہم اللہ کی اجازت سے شرک کرتے ہیں۔ کیا یہ اپنے دعوی پر کوئی دلیل یا دست آویز پیش کرسکتے ہیں؟
بلندی پر چڑھتے ہوئے سینہ تنگ ہونے کی مثال اعجازِ قرآنی کی معرکۃ الآراء مثال شمار ہوتی ہے۔ اس لئے کہ طب جدید کی تحقیق نے یہ ثابت کیا ہے کہ بلندی پر آکسیجن کی کمی کی وجہ سے دَم گھٹنے لگتا ہے اور سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے۔ آج سے سوا چودہ سو سال پہلے اس سائنسی حقیقت کی طرف اشارہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ یہ قرآن کسی انسان کا نہیں بلکہ اللہ رب العالمین کا کلام ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ تمام جنات و انسانوں سے قیامت کے دن باز پرس کی جائے گی اور ہر ایک کو احتساب کے عمل سے گزرنا ہوگا جبکہ یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ انسانوں کی طرح جنات بھی قرآنی تعلیمات پر عمل کرنے کے پابند ہیں، پھر یہ بتایا کہ مجرموں کی گرفت کے لئے اللہ کا ضابطہ ہے کہ ظالم کی بے خبری میں گرفت نہیں کرتے اور اللہ تعالیٰ تمام مخلوقات سے مستغنی اور رحیم ذات ہے۔ وہ اگر انسانوں کو ختم کرکے کسی دوسری قوم کو لانا چاہے تو اسے کوئی روک نہیں سکتا۔ پھر کھیتیوں اور جانوروں میں مشرکانہ رسوم و رواج کی مذمت کرتے ہوئے اسے شیطانی عمل قرار دیا ہے۔ قدرت خداوندی کا بیان ہے کہ اللہ زمین سے کیسے کیسے باغات پیدا کرتا ہے، جن میں سہارے کی محتاج بیلیں اور بغیر سہارے کے پروان چڑھنے والے پودے ہوتے ہیں۔ کھجوریں، مختلف ذائقہ والے ملتے جلتے اور غیر متشابہ پھل ہوتے ہیں۔ یہ سب انسانی خوراک اور صدقہ و خیرات کے لئے اللہ نے پیدا کئے ہیں۔ ان میں اسراف نہ کیا جائے۔ چھوٹے بڑے جانور بھی کھانے کے لئے اللہ نے پیدا کئے۔ ان کے بارے میں شیطانی تعلیمات کی پیروی نہ کریں۔ نر اور مادہ کو شمار کرکے عام طور پر آٹھ قسم کے پالتو جانور ہیں۔ بھیڑ، بکری، گائے، اونٹ۔ اللہ نے ان میں سے کسی کو حرام قرار نہیں دیا تو تم لوگ ان کے نر یا مادہ یا ان کے حمل کو حرام کیوں کرتے ہو؟ مشرک کہتے ہیں کہ ہم اللہ کی اجازت سے شرک کرتے ہیں۔ کیا یہ اپنے دعوی پر کوئی دلیل یا دست آویز پیش کرسکتے ہیں؟
اس کے
بعد تمام انبیاء علیہم السلام کا دس نکاتی مشترکہ پروگرام پیش کیا جو حقوق
اللہ اور حقوق العباد پر مشتمل ہے۔ اللہ کی عبادت، والدین کے ساتھ حسن
سلوک، تنگی کے خوف سے اولاد کے قتل سے گریز، برائی کے کاموں سے پرہیز، بے
گناہ کے قتل سے بچنا، یتیم کے مال کو ناجائز استعمال نہ کرنا، ناپ تول میں
کمی نہ کرنا، قول و فعل میں انصاف کے تقاضے پورے کرنا، اللہ سے کئے ہوئے
عہد و پیمان کو پورا کرنا اور صراط مستقیم کی پیروی کرنا پھر موسیٰ علیہ
السلام کی نبوت اور ان کی کتاب کا تذکرہ پھر نزولِ قرآن کی بشارت کہ اس
میں برکت بھی ہے، رحمت بھی اور ہدایت بھی۔ پھر دین میں تفرقہ اور دھڑے بندی
کرنے والوں کی مذمت، پھر امت محمدیہ کی فضیلت کہ نیکی پر دس گنا اجر اور
گناہ پر ایک سے زیادہ کی سزا نہیں ملے گی۔ محمدی تعلیمات کے ملت ابراہیمی
کے عین مطابق ہونے کا اعلان۔ ابراہیمی طرز زندگی کی وضاحت کہ تمام بدنی و
مالی عبادت اور جینا اور مرنا بھی اللہ ہی کے لئے ہے۔ ’’جو کرے گا وہی بھرے
گا‘‘ کا ضابطہ اور سورہ کے آخر میں امتحان کے نقطہ نظر سے انسانوں میں
فرقِ مراتب اور زمین کی خلافت کا استحقاق اور اللہ کے سریع العقاب ہونے کی
دھمکی کے ساتھ ساتھ غفور رحیم ہونے کی خوشخبری بھی شامل ہے۔
سورہ الاعراف
جنت اور جہنم کے درمیان واقع ایک چبوترا ہے، جس پر ان لوگوں کو عارضی طور پر ٹھہرایا جائے گا، جن کی حسنات و سیئات برابر ہوں گی۔ أعراف کا تذکرہ اس سورہ میں موجود ہے اس لئے اسی نام سے پوری سورہ کو موسوم کردیا گیا۔
یہ سورہ دو سو چھ آیتوں اور چوبیس رکوع پر مشتمل ہے۔ یہ ایک طویل مکی سورہ ہے جو تقریباً سوا پارہ پر پھیلی ہوئی ہے۔ اس سے پہلی سورہ الانعام کا مرکزی مضمون ’’توحید‘‘ تھا اور اس سورہ کا مرکزی مضمون ’’رسالت‘‘ ہے۔
اس کے
ساتھ ہی جنت و جہنم اور قیامت کے موضوع پر بھی گفتگو موجود ہے۔ سورہ کی
ابتداء میں قرآن کریم کی حقانیت کو ایک انوکھے انداز میں بیان کیا گیا ہے،
جس میں ایک طرف حضور علیہ السلام کی ہمت افزائی ہے تو دوسری طرف آپ کی
تسلی کے لئے ’’وحی الٰہی‘‘ کے منکرین کا انجام ہے کہ اگر مشرکین مکہ آپ پر
نازل شدہ قرآن کریم کا انکار کرتے ہیں تو آپ دل برداشتہ نہ ہوں۔ یہ لوگ
اپنے منطقی انجام کو پہنچ کر رہیں گے کیونکہ اس سے پہلے بھی ایسی قومیں
گزری ہیں جنہیں ’’وحی الٰہی‘‘ کے انکار پر پلک جھپکتے میں نیست و نابود
کردیا گیا۔ پھر یہ بتایا گیا ہے کہ آج کے دور کا فرقہ بندیوں، پارٹی
بندیوں اور جنگ و جدل کا شکار ہونے والا انسان درحقیقت ایک ہی باپ کی صلب
سے پیدا ہونے والا اور ایک ہی ماں کی کوکھ سے جنم لینے والا ہے۔ یہ سب کالے
اور گورے، امیر و غریب، شاہ و گدا ایک ہی گھرانے کے افراد اور ایک ہی
خاندان کے چشم و چراغ ہیں اور انہیں باہمی افتراق و نزاع کسی طرح بھی زیب
نہیں دیتا۔
خالقِ انسان کی نگاہ میں اس انسان کی قدر و منزلت کیا ہے؟ اس کی
طرف اشارہ کرنے کے لئے انسانیت کے جدامجد آدم علیہ السلام کو مسجود
ملائکہ بناکر اعزاز و اکرام کے ساتھ اس کے اصلی گھر جنت میں بھیج دیا اور
شیطان کی ازلی دشمنی بتانے کے لئے شجر ممنوعہ کو استعمال کرواکر جدوجہد اور
معرکۂ حق و باطل کے طویل اور صبر آزما امتحان کے لئے اسے زمین پر
اتاردیا۔ چار مرتبہ اس انسان کو یا بنی آدم ’’اے آدم کی اولاد‘‘ کہہ کر
پکارا۔ یہ نداء اس سورہ کے ساتھ خاص ہے۔
شیطان کے شر سے بچنے کے لئے
انتہائی پرحکمت خطاب کرتے ہوئے فرمایا:’’اے بنی آدم! جس شیطان نے تمہارے
والدین کا لباس اترواکر انہیں جنت سے نکلوادیا تھا کہیں تمہیں بھی فتنہ میں
مبتلا کرکے جنت سے محروم نہ کردے۔‘‘ اس کے بعد قیامت کے دن کی منظر کشی
کرتے ہوئے اصحاب الجنۃ، اصحاب النار اور اصحاب الأعراف کے نام سے تین گروہ
ذکر کئے۔ اس گروہ کا تذکرہ صرف اسی سورہ میں ہے۔
اس کے بعد وہ منظر پیش
کیا گیا، جس میں جنت والے، جہنم والوں کا ویسے ہی مذاق اڑائیں گے جیسے وہ
لوگ دنیا میں ان کی نیکی اور صلاح و تقویٰ پر مذاق اڑایا کرتے تھے۔ وہ کیسا
منظر ہوگا جب جنت والے انعامات اور عیش و عشرت کے مزے لے رہے ہوں گے اور
جہنم والے عذاب کی اذیت و کربناکی میں مبتلا ہوں گے اور جنتیوں سے کھانے کے
ایک نوالہ اور پانی کے دو گھونٹ بھیک مانگ رہے ہوں گے اور اصحاب الأعراف
اپنی فصیل سے دائیں بائیں جھانک کر جنت و جہنم والوں میں اپنے جاننے والوں
کو پہچانیں گے اور ان سے گفتگو کریں گے۔ اہل جنت کے چہرے روشن اور چمکدار
ہوں گے جبکہ اہل جہنم بدشکل، سیاہ اور ذلت و رسوائی کے عالم میں ہوں گے۔
اسی اثناء میں اللہ کا منادی آواز لگائے گا:’’اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ نیکیوں
کا بدلہ جنت ہے جو صلحاء کو مل گئی اور اللہ کے راستہ میں رکاوٹیں ڈالنے
والے اور من مانے طریقہ پر اللہ کے احکام کو اپنی خواہشات کے مطابق توڑ
مروڑ کر پیش کرنے والے ظالم اور منکرین آخرت ہمیشہ ہمیشہ کے لئے عذاب کا
طوق ان کے گلے میں ڈالا گیا‘‘۔ اس کے بعد آسمان و زمین کے پیدا کرنے، دن
رات کے آنے جانے، ہوائوں کے چلنے اور بارش کے برسنے اور درختوں اور پودوں
کے زمین سے نکلنے میں غور و خوض کرنے کی دعوت دے کر پہلے انبیاء علیہم
السلام کا طویل تذکرہ شروع کردیا۔
نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو توحید کی دعوت دی۔ قوم نے انہیں گمراہ قرار دے کر ان کا مذاق اڑایا۔ ان کی رسالت کا انکار کیا، جس پر اللہ نے پانی کا عذاب مسلط کرکے انہیں ہلاک کردیا اور اپنے نبی کو کشتی کے اندر بچالیا۔ ہود علیہ السلام کا تذکرہ کہ انہوں نے قوم عاد کو دعوت توحید دی انہوں نے ہود علیہ السلام کو بے وقوف اور ناسمجھ قرار دے کر انکار کیا۔ اللہ نے ان پر آندھی اور طوفان کا عذاب مسلط کرکے ہلاک کردیا اور اپنے نبی اور ان کے متبعین کو بچالیا۔ پھر قوم ثمود کا تذکرہ، صالح علیہ السلام نے انہیں دعوت توحید دی۔ انہوں نے انکار کیا اور بیجا مطالبے شروع کردیئے۔ کہنے لگے کہ پہاڑ سے اونٹنی پیدا کرکے دکھائو جو نکلتے ہی بچہ جنے۔ جب اونٹنی معجزانہ طریقہ پر ظاہر ہوگئی تو انہوں نے اسے قتل کرکے اپنے اوپر عذاب مسلط کرلیا۔ ان کی بستی پر ایسا زبردست زلزلہ آیا کہ ان کا نام و نشان مٹ کر رہ گیا۔
پھر قوم لوط اور ان کی بے راہ روی کا تذکرہ۔ لوط علیہ السلام نے انہیں بدفعلی جیسے گھنائونے جرم سے منع کیا تو وہ ان کا مذاق اڑانے لگے کہ تم بہت پاکباز بنتے ہو۔ ہم تمہیں اپنے ملک سے نکال باہر کریں گے۔ اللہ نے ان پر پتھروں کی بارش کرکے انہیں تباہ کردیا۔
پھر قوم مدین کا تذکرہ۔ حضرت شعیب علیہ السلام نے انہیں توحید کی دعوت دی اور تجارت میں بددیانتی سے منع کرکے ناپ تول پورا کرنے کی تلقین فرمائی اور انہیں راہ گیر مسافروں کو ڈرانے دھمکانے سے باز رہنے کا حکم دیا، جس پر وہ لوگ بگڑگئے اور حضرت شعیب علیہ السلام کی مخالفت پر اتر آئے۔ انہوں نے فرمایا کہ میری قوم تمہارے دو گروہ بن چکے ۔ ایک ایمان والا اور دوسرا کفر والا۔ لہٰذا اپنے انجام کا انتظار کرو عنقریب ہمارے اور تمہارے درمیان اللہ فیصلہ کردیں گے۔
نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو توحید کی دعوت دی۔ قوم نے انہیں گمراہ قرار دے کر ان کا مذاق اڑایا۔ ان کی رسالت کا انکار کیا، جس پر اللہ نے پانی کا عذاب مسلط کرکے انہیں ہلاک کردیا اور اپنے نبی کو کشتی کے اندر بچالیا۔ ہود علیہ السلام کا تذکرہ کہ انہوں نے قوم عاد کو دعوت توحید دی انہوں نے ہود علیہ السلام کو بے وقوف اور ناسمجھ قرار دے کر انکار کیا۔ اللہ نے ان پر آندھی اور طوفان کا عذاب مسلط کرکے ہلاک کردیا اور اپنے نبی اور ان کے متبعین کو بچالیا۔ پھر قوم ثمود کا تذکرہ، صالح علیہ السلام نے انہیں دعوت توحید دی۔ انہوں نے انکار کیا اور بیجا مطالبے شروع کردیئے۔ کہنے لگے کہ پہاڑ سے اونٹنی پیدا کرکے دکھائو جو نکلتے ہی بچہ جنے۔ جب اونٹنی معجزانہ طریقہ پر ظاہر ہوگئی تو انہوں نے اسے قتل کرکے اپنے اوپر عذاب مسلط کرلیا۔ ان کی بستی پر ایسا زبردست زلزلہ آیا کہ ان کا نام و نشان مٹ کر رہ گیا۔
پھر قوم لوط اور ان کی بے راہ روی کا تذکرہ۔ لوط علیہ السلام نے انہیں بدفعلی جیسے گھنائونے جرم سے منع کیا تو وہ ان کا مذاق اڑانے لگے کہ تم بہت پاکباز بنتے ہو۔ ہم تمہیں اپنے ملک سے نکال باہر کریں گے۔ اللہ نے ان پر پتھروں کی بارش کرکے انہیں تباہ کردیا۔
پھر قوم مدین کا تذکرہ۔ حضرت شعیب علیہ السلام نے انہیں توحید کی دعوت دی اور تجارت میں بددیانتی سے منع کرکے ناپ تول پورا کرنے کی تلقین فرمائی اور انہیں راہ گیر مسافروں کو ڈرانے دھمکانے سے باز رہنے کا حکم دیا، جس پر وہ لوگ بگڑگئے اور حضرت شعیب علیہ السلام کی مخالفت پر اتر آئے۔ انہوں نے فرمایا کہ میری قوم تمہارے دو گروہ بن چکے ۔ ایک ایمان والا اور دوسرا کفر والا۔ لہٰذا اپنے انجام کا انتظار کرو عنقریب ہمارے اور تمہارے درمیان اللہ فیصلہ کردیں گے۔
0 comments:
Post a Comment