احساس ذمہ داری
گیند پوری قوت سے آئی اور کھڑکی کے شیشے سے ٹکرائی۔ شیشہ چھن کی آواز سے ٹوٹا اور اس کے ٹکڑے نیچے آگرے۔
حامد کی سٹّی گم ہوگئی۔ یہ زبردست شاٹ اس نے لگائی تھی۔ فوراً ہی سارے ساتھی اس کے پاس آ جمع ہوئے۔ وہ کرکٹ کو بھول گئے تھے، ٹوٹے ہوئے شیشے کو ٹکڑٹکر دیکھ رہے تھے۔
” اب․․․ اب کیا ہوگا․․․؟ شیخ صاحب کا گھرانہ تو ان دنوں مری گیا ہوا ہے۔ وہ واپس لوٹیں گے تو شیشہ ٹوٹا ہوا پائیں گے․․․ انہیں کس قدر دکھ ہوگا۔“ حامد پریشانی کے عالم میں کہہ رہا تھا۔
”اور پورے محلے میں شیخ صاحب جیسا شریف انسان نہیں ہوگا، سبھی ان کی بے حد عزت کرتے ہیں․․․ وہ جب محلے داروں کو جمع کرکے کھڑکی کا شیشہ دکھائیں گے تو سب لوگ ہمیں برا بھلا کہیں گے․․․“ ارشد کی آواز سے بھی پریشانی ٹپک رہی تھی۔
”تب پھر․․․ کیا کیا جائے۔“ حامد کی آواز مشکل سے نکلی․․․
”میری ایک تجویزہے․․․“ ایسے میں خالد کی آواز سنائی دی۔
”ہاں کہو۔“
”ہم سب مل کر پیسے جمع کرتے ہیں․․․ اور شیشہ لگانے والے کو لے آتے ہیں․․․“
”بہت خوب!“
اور پھر انہوں نے اپنی اپنی جیب سے پیسے نکالے۔ انہیں جمع کیا، گنا اور دو ساتھی شیشہ لگانے والے کے پاس گئے۔ اسے صورت حال بتائی․․․ اس نے فوراً کہا:
”ٹھیک ہے، میں آپ لوگوں کے ساتھ چلتا ہوں اور شیشہ لگا دیتا ہوں․․․ شیشے کی قیمت اور لگانے کی مزدوری بتا دیتا ہوں۔“
”ٹھیک ہے․․․ آپ چلیے۔“
شیشہ لگانے والا ان کے ساتھ وہاں آگیا․․․ اس نے جائزہ لیا․․․ پیمائش کی اور بولا:
”پانچ سو روپے کا خرچ ہے۔“
”ٹھیک ہے انکل، آپ شیشہ لگادیں، ہمارے پاس پانچ سو روپے ہیں۔“
”فکر نہ کریں۔“
اور پھر اس نے شیشہ لگادیا․․․ ٹوٹے ہوئے ٹکڑے وہاں سے سمیٹ لیے․․․
شیخ صاحب فیملی کی گاڑی ان کی کوٹھی کے سامنے آکر رکی۔ شیخ صاحب نے گاڑی سے اتر کر دروازہ کھولا اور پھر اندر داخل ہوئے․․․ ایسے میں بیگم شیخ کے منہ سے مارے حیرت کے نکلا:
”ارے! یہ کیا․․․ یہ کھڑکی کے نیچے شیشے کے ٹکڑے کیسے پڑے ہیں۔“
”کھڑکی کا شیشہ تو صحیح سلامت ہے․․․ حیرت ہے“ شیخ صاحب کا بیٹا بولا۔
اب شیخ صاحب بھی وہاں آ کھڑے ہوئے․․․ انہوں نے غور سے ان ٹکڑوں کا اور کھڑکی کا جائزہ لیا․․․ پھر بولے․․․
”میں سمجھ گیا․․․ لیکن مجھے حیرت ہورہی ہے۔“
”جی! آپ کیا سمجھ گئے؟“
”یہ کہ محلے کے بچے کرکٹ کھیل رہے ہوں گے․․․ ان سے کھڑکی کا شیشہ ٹوٹ گیا․․․ انہوں نے ذمے داری کا ثبوت دیا اور سب نے مل کر شیشہ لگوادیا․․․ آپ سامان رکھیں، میں ان سے بات کرکے آتا ہوں۔“
یہ کہہ کر شیخ صاحب گھر سے نکل آئے․․․ انہوں نے دو تین گھروں کے دروازوں پر باری باری دستک دے ڈالی․․․ جلد ہی تین چار بچے ان کے سامنے آ کھڑے ہوئے․․․
”جی انکل!“
”یہ․․․ کھڑکی کا شیشہ آپ لوگوں نے لگوایا ہے۔“
”انکل․․․ آپ․․․ آپ کو کیسے معلوم ہوا؟“
”بھئی شیشہ ٹوٹنے پر، ٹکڑے صرف باہر ہی نہیں گرتے․․․ اندر بھی گرتے ہیں۔“ شیخ صاحب مسکرائے۔
”آپ کا انداز ہ درست ہے انکل․․․ ہم سے آپ کا شیشہ ٹوٹ گیا تھا․․․ سو ہم سب نے پیسے جمع کیے شیشہ لگوادیا۔“
”آپ․․․ آپ بہت اچھے بچے ہیں․․․ میرے بچو نقصان تو ہوتے رہتے ہیں․․․ آپ نے جو ذمے داری کا ثبوت دیا․․․ میں اس سے بہت زیادہ خوشی محسوس کررہا ہوں۔“ بھلا کتنے پیسے دینے پڑے آپ لوگوں کو؟
”لیکن انکل آپ کیوں پوچھ رہے ہیں۔“
”جی پانچ سو روپے۔“
”یہ پانچ سو روپے لے لیں․․ ․ اور حساب سے اپنے اپنے پیسے ان میں سے لے لیں․․․“
”رہنے دیں انکل․․․“
”نہیں! آپ بچے ہیں․․․ مجھے خوشی کے ساتھ شرم بھی محسوس ہورہی ہے کہ میں نے آج تک اپنی ذمے داری کیوں محسوس نہیں کی․․․“
”جی․․․ آپ کی ذمے داری؟“
”ہاں نہیں․․․ مجھے بھی تو سوچنا چاہیے تھا․․․ بلکہ محلے کے سب لوگوں کو سوچنا چاہیے تھا۔ خیر․․․ میں آج ہی چند ساتھیوں کے ساتھ شہر کے ناظم سے ملاقات کروں گا․․․ ہم انہیں بتائیں گے․․․ یہاں ہمارے محلے کے بچوں کے لیے کھیلنے کا پارک بنواکر دو۔“
”اوہ․․․ انکل․․․اوہ․․․ ایساہوجائے تو کیا ہی بات ہے۔“
”ایسا ہوگا میرے بچو․․․ کھڑکی کا شیشہ لگواکر آپ لوگوں نے مجھے ایک سبق دیا ہے․․․ اور آپ کے اس سبق کو ناظم صاحب محسوس کیے بغیر نہیں رہیں گے۔“
”ان شاء اللہ!“ ان سب کے منہ سے نکلا اور ان کے چہروں پر خوشی پھیل گئی۔
حامد کی سٹّی گم ہوگئی۔ یہ زبردست شاٹ اس نے لگائی تھی۔ فوراً ہی سارے ساتھی اس کے پاس آ جمع ہوئے۔ وہ کرکٹ کو بھول گئے تھے، ٹوٹے ہوئے شیشے کو ٹکڑٹکر دیکھ رہے تھے۔
” اب․․․ اب کیا ہوگا․․․؟ شیخ صاحب کا گھرانہ تو ان دنوں مری گیا ہوا ہے۔ وہ واپس لوٹیں گے تو شیشہ ٹوٹا ہوا پائیں گے․․․ انہیں کس قدر دکھ ہوگا۔“ حامد پریشانی کے عالم میں کہہ رہا تھا۔
”اور پورے محلے میں شیخ صاحب جیسا شریف انسان نہیں ہوگا، سبھی ان کی بے حد عزت کرتے ہیں․․․ وہ جب محلے داروں کو جمع کرکے کھڑکی کا شیشہ دکھائیں گے تو سب لوگ ہمیں برا بھلا کہیں گے․․․“ ارشد کی آواز سے بھی پریشانی ٹپک رہی تھی۔
”تب پھر․․․ کیا کیا جائے۔“ حامد کی آواز مشکل سے نکلی․․․
”میری ایک تجویزہے․․․“ ایسے میں خالد کی آواز سنائی دی۔
”ہاں کہو۔“
”ہم سب مل کر پیسے جمع کرتے ہیں․․․ اور شیشہ لگانے والے کو لے آتے ہیں․․․“
”بہت خوب!“
اور پھر انہوں نے اپنی اپنی جیب سے پیسے نکالے۔ انہیں جمع کیا، گنا اور دو ساتھی شیشہ لگانے والے کے پاس گئے۔ اسے صورت حال بتائی․․․ اس نے فوراً کہا:
”ٹھیک ہے، میں آپ لوگوں کے ساتھ چلتا ہوں اور شیشہ لگا دیتا ہوں․․․ شیشے کی قیمت اور لگانے کی مزدوری بتا دیتا ہوں۔“
”ٹھیک ہے․․․ آپ چلیے۔“
شیشہ لگانے والا ان کے ساتھ وہاں آگیا․․․ اس نے جائزہ لیا․․․ پیمائش کی اور بولا:
”پانچ سو روپے کا خرچ ہے۔“
”ٹھیک ہے انکل، آپ شیشہ لگادیں، ہمارے پاس پانچ سو روپے ہیں۔“
”فکر نہ کریں۔“
اور پھر اس نے شیشہ لگادیا․․․ ٹوٹے ہوئے ٹکڑے وہاں سے سمیٹ لیے․․․
شیخ صاحب فیملی کی گاڑی ان کی کوٹھی کے سامنے آکر رکی۔ شیخ صاحب نے گاڑی سے اتر کر دروازہ کھولا اور پھر اندر داخل ہوئے․․․ ایسے میں بیگم شیخ کے منہ سے مارے حیرت کے نکلا:
”ارے! یہ کیا․․․ یہ کھڑکی کے نیچے شیشے کے ٹکڑے کیسے پڑے ہیں۔“
”کھڑکی کا شیشہ تو صحیح سلامت ہے․․․ حیرت ہے“ شیخ صاحب کا بیٹا بولا۔
اب شیخ صاحب بھی وہاں آ کھڑے ہوئے․․․ انہوں نے غور سے ان ٹکڑوں کا اور کھڑکی کا جائزہ لیا․․․ پھر بولے․․․
”میں سمجھ گیا․․․ لیکن مجھے حیرت ہورہی ہے۔“
”جی! آپ کیا سمجھ گئے؟“
”یہ کہ محلے کے بچے کرکٹ کھیل رہے ہوں گے․․․ ان سے کھڑکی کا شیشہ ٹوٹ گیا․․․ انہوں نے ذمے داری کا ثبوت دیا اور سب نے مل کر شیشہ لگوادیا․․․ آپ سامان رکھیں، میں ان سے بات کرکے آتا ہوں۔“
یہ کہہ کر شیخ صاحب گھر سے نکل آئے․․․ انہوں نے دو تین گھروں کے دروازوں پر باری باری دستک دے ڈالی․․․ جلد ہی تین چار بچے ان کے سامنے آ کھڑے ہوئے․․․
”جی انکل!“
”یہ․․․ کھڑکی کا شیشہ آپ لوگوں نے لگوایا ہے۔“
”انکل․․․ آپ․․․ آپ کو کیسے معلوم ہوا؟“
”بھئی شیشہ ٹوٹنے پر، ٹکڑے صرف باہر ہی نہیں گرتے․․․ اندر بھی گرتے ہیں۔“ شیخ صاحب مسکرائے۔
”آپ کا انداز ہ درست ہے انکل․․․ ہم سے آپ کا شیشہ ٹوٹ گیا تھا․․․ سو ہم سب نے پیسے جمع کیے شیشہ لگوادیا۔“
”آپ․․․ آپ بہت اچھے بچے ہیں․․․ میرے بچو نقصان تو ہوتے رہتے ہیں․․․ آپ نے جو ذمے داری کا ثبوت دیا․․․ میں اس سے بہت زیادہ خوشی محسوس کررہا ہوں۔“ بھلا کتنے پیسے دینے پڑے آپ لوگوں کو؟
”لیکن انکل آپ کیوں پوچھ رہے ہیں۔“
”جی پانچ سو روپے۔“
”یہ پانچ سو روپے لے لیں․․ ․ اور حساب سے اپنے اپنے پیسے ان میں سے لے لیں․․․“
”رہنے دیں انکل․․․“
”نہیں! آپ بچے ہیں․․․ مجھے خوشی کے ساتھ شرم بھی محسوس ہورہی ہے کہ میں نے آج تک اپنی ذمے داری کیوں محسوس نہیں کی․․․“
”جی․․․ آپ کی ذمے داری؟“
”ہاں نہیں․․․ مجھے بھی تو سوچنا چاہیے تھا․․․ بلکہ محلے کے سب لوگوں کو سوچنا چاہیے تھا۔ خیر․․․ میں آج ہی چند ساتھیوں کے ساتھ شہر کے ناظم سے ملاقات کروں گا․․․ ہم انہیں بتائیں گے․․․ یہاں ہمارے محلے کے بچوں کے لیے کھیلنے کا پارک بنواکر دو۔“
”اوہ․․․ انکل․․․اوہ․․․ ایساہوجائے تو کیا ہی بات ہے۔“
”ایسا ہوگا میرے بچو․․․ کھڑکی کا شیشہ لگواکر آپ لوگوں نے مجھے ایک سبق دیا ہے․․․ اور آپ کے اس سبق کو ناظم صاحب محسوس کیے بغیر نہیں رہیں گے۔“
”ان شاء اللہ!“ ان سب کے منہ سے نکلا اور ان کے چہروں پر خوشی پھیل گئی۔
0 comments:
Post a Comment