حضرت
عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کا تقوٰی
حضرت
عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ جناب عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں شام کے
گورنر تھے اور گورنر شام ان کو اس لیے بنایا گیا تھا کہ اکتر علاقہ انھو ں
نے فتح کیا تھا اس وقت شام کے علاقے میں چار ممالک ھیں یعنی اردن،شام
،فلسطین،لبنان اس وقت یہ چاروں علاقہ اسلامی ریاست کا ایک صوبہ تھے اور
حضرت عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ اسکے گورنر تھے اور شام
کا صوبہ بڑا زرخیز تھا مال اور دولت کی ریل پیل اور روم کا سرسبز و شاداب
علاقہ تھا جناب عمر رضی اللہ عنہ مدینہ میں رہ کر سارے عالم اسلام کی کمان
کیا کرتے تھے چنانچہ ایک دفعہ معائنہ کرنے کے لیے شام دورہ پر تشریف لاے
شام دورہ کے دوران ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اے ابو عبیدہ
رضی اللہ عنہ میرا دل چاھتا ھے کہ میں اپنے بھائ کا گھر دیکھون جہاں تم
رھتے ھو جناب عمر رضی اللہ عنہ کے ذہن میں شاید یہ تھا کا کہ ابو عبیدہ رضی
اللہ عنہ اتنے بڑ یے صوبہ کے گورنر بن گیے ھیں اور یہاں دولت کی فراوانی
ھے اس لے انکا گھر دیکھنا چاہیے کے انھوں نے کتنا مال جمع کیا ھے اور گھر
کیسا بنایا ہے
ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ امیر المومنین آپ میرے گھر کو دیکھ کر کیا کریں گے اس لیے کے جب آپ میرے گھر کو دیکھیں گے تو آنکھیں نچوڑنے کے سوا کچھ حاصل نہ ھو گا تو عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اصرار فرمایا کہ میں دیکھنا چاھتا ھوں
چنانچہ ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ امیر المومنین کو لے کر چلے شہر کے اندر سے گزر رھے تھے جاتے جاتے جب شہر کی آبادی ختم ھو گئ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہاں لے کر جارھے ھو ؟ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا بس اب تو قریب ھے چنانچہ پورا دمشق شہر جو دنیا کے مال و اسباب سے جگ مگا رھا تھا گزر گیا آخر میں لے جا کر کھجور کے پتوں سے بنا جھونپڑا دکھایا سواے ایک مصلّے کے کوئی چیز نظر نہ آئی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا تم اس میں رھتے ھو ؟ یہاں تو کوئی سازوسامان کوئی برتن کوئی کھانے پینے اور سونے کا انتظام نھی ھے تم یھا ں کیسے رھتے ھو؟
انھون نے جواب دیا کے اے امیر المومنین الحمداللہ میری ضرورت کے سارے سامان میسر ھیں یہ مصلی ھے اس پر نماز پڑھ لیتا ھون اور رات کو اس پر سو جاتا ھوں اور پھر اپنا ہاتھ اوپر چھپر کی طرف اٹھایا اور وہاں سے ایک پیالہ نکالا جو نظر نھی آ رھا تھا اور وہ پیالہ نکال کر دیکھایا کہ امیر المومنین برتن یہ ھے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب اس برتن کو دیکھا تو اس مین پانی بھرا ھوا تھا اور سوکھی روٹی کے ٹکڑے بھیگے ھوے تھے اور پھر حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ امیر المومنین میں دن رات تو حکومت کے کاموں میں لگا رھتا ھوں کھانے وغیرہ کے کاموں کے لیے فرصت نہیں ھوتی ایک خاتون میرے لیے دو تین دن کی روٹی ایک وقت میں پکا دیتی ھے میں اس روٹی کو کھا لیتا ھون اور جب سوکھ جاتی ھے تو اس کو پانی مین ڈبو دیتا ھون اور رات کو سوتے وقت کھا لیتا ھوں
جناب عمر رضی اللہ عنہ نے یہ حالت دیکھی تو آنکھوں میں آنسو آ گئے حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ امیر المومنین میں تو آپ سے پہلے ھی کہہ رھا تھا کہ میرا مکان دیکھنے کے بعد آپ کو آنکھیں نچوڑنے کاے سوا کچھ نہیں حاصل ھو گا -حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اے ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ اس دینا کی ریل پیل نے ھم سب کو بدل دیا مگر اللہ کی قسم تم ویسے ھی ھو جیسے رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم کے زمانے میں تھے اس دنیا نے تم پر کوئ اثر نہیں ڈالا-
[سیر اعلام النبلاء]
ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ امیر المومنین آپ میرے گھر کو دیکھ کر کیا کریں گے اس لیے کے جب آپ میرے گھر کو دیکھیں گے تو آنکھیں نچوڑنے کے سوا کچھ حاصل نہ ھو گا تو عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اصرار فرمایا کہ میں دیکھنا چاھتا ھوں
چنانچہ ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ امیر المومنین کو لے کر چلے شہر کے اندر سے گزر رھے تھے جاتے جاتے جب شہر کی آبادی ختم ھو گئ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہاں لے کر جارھے ھو ؟ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا بس اب تو قریب ھے چنانچہ پورا دمشق شہر جو دنیا کے مال و اسباب سے جگ مگا رھا تھا گزر گیا آخر میں لے جا کر کھجور کے پتوں سے بنا جھونپڑا دکھایا سواے ایک مصلّے کے کوئی چیز نظر نہ آئی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا تم اس میں رھتے ھو ؟ یہاں تو کوئی سازوسامان کوئی برتن کوئی کھانے پینے اور سونے کا انتظام نھی ھے تم یھا ں کیسے رھتے ھو؟
انھون نے جواب دیا کے اے امیر المومنین الحمداللہ میری ضرورت کے سارے سامان میسر ھیں یہ مصلی ھے اس پر نماز پڑھ لیتا ھون اور رات کو اس پر سو جاتا ھوں اور پھر اپنا ہاتھ اوپر چھپر کی طرف اٹھایا اور وہاں سے ایک پیالہ نکالا جو نظر نھی آ رھا تھا اور وہ پیالہ نکال کر دیکھایا کہ امیر المومنین برتن یہ ھے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب اس برتن کو دیکھا تو اس مین پانی بھرا ھوا تھا اور سوکھی روٹی کے ٹکڑے بھیگے ھوے تھے اور پھر حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ امیر المومنین میں دن رات تو حکومت کے کاموں میں لگا رھتا ھوں کھانے وغیرہ کے کاموں کے لیے فرصت نہیں ھوتی ایک خاتون میرے لیے دو تین دن کی روٹی ایک وقت میں پکا دیتی ھے میں اس روٹی کو کھا لیتا ھون اور جب سوکھ جاتی ھے تو اس کو پانی مین ڈبو دیتا ھون اور رات کو سوتے وقت کھا لیتا ھوں
جناب عمر رضی اللہ عنہ نے یہ حالت دیکھی تو آنکھوں میں آنسو آ گئے حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ امیر المومنین میں تو آپ سے پہلے ھی کہہ رھا تھا کہ میرا مکان دیکھنے کے بعد آپ کو آنکھیں نچوڑنے کاے سوا کچھ نہیں حاصل ھو گا -حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اے ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ اس دینا کی ریل پیل نے ھم سب کو بدل دیا مگر اللہ کی قسم تم ویسے ھی ھو جیسے رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم کے زمانے میں تھے اس دنیا نے تم پر کوئ اثر نہیں ڈالا-
[سیر اعلام النبلاء]
0 comments:
Post a Comment