خاموشی
آرام
نگر میں رات بہت گہری ہو چکی تھی۔ ہر طرف ہو کا عالم تھا۔ سکون رات کی
سلطنت پر راج کر رہا تھا۔ اچانک مکئی کے کھیتوں میں کچھ سرسراہٹ کی آواز
آئی جیسے کوئی پراسرار سایہ وہاں سے گزرا ہو۔ اس آواز کا آنا تھا کہ چند
آوارہ کتوں نے بھونکنا شروع کر دیا۔رات کی خاموشی کا دامن تار تا ر ہو گیا۔
سناٹے کو شور نے نگل لیا۔ سکون اپنی سلطنت چھوڑ کر جنگل کی طرف بھاگ گیا۔
یہ منظر دیکھ کر ایک عمر رسیدہ کتا آگے بڑھا اور
اپنے ساتھیوں کو خاموشی کی نصیحت کرنے لگا۔ اس نے اپنے ساتھیوں کو ہر ممکن
احساس دلایا کہ ان کا کام غلط ہے۔اس نے ان سے یہ بھی کہ ان کے وقت بے وقت
بھونکنے کی وجہ سے انسانوں نے کتوں کے بھونکنے کی پرواہ کرنا چھوڑ دی ہے۔
حتی کی اب تو انسانوں نے یہ محاورہ بھی ایجاد کر لیا ہے کہ جو بھونکتے ہیں
وہ کاٹتے نہیں۔ اگر کتوں کی عزت نفس بحال کرنی ہے اور اگر انسانوں کی بستی
میں وقار سے رہنا ہے تو خاموشی کو اوڑھنا بچھونا بنا کر ہی ایسا کیا جا
سکتا ہے۔ اس کی اس پرزور تقریر اور دلکش تلقین سے تمام کتے خاموش ہو گئے
اور وہ تمام رات خاموشی کے فوائد پر گفتگو کرتا﴿بھونکتا﴾ رہا۔بسا اوقات
ایسا ہوتا ہے کہ خاموشی کے فوائد پر گفتگو کرنے والے ہی اس کے مجرم ہوتے
ہیں۔
کہہ رہا ہے شور دریا سے سمندر کا سکوت جس کا جتنا ظرف ہے اتناہی وہ خاموش ہے
بزرگ کہتے ہیں اگر گفتگو چاندی ہے تو خاموشی سونا ہے۔خاموشی اتنی نازک چیز ہے کہ نام لینے سے بھی ٹوٹ جاتی ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ آدمی اپنی صحبت سے پہچانا جاتا ہے مگر اس سے بھی بڑھ کے آدمی اپنی گفتار سے پہچانا جاتا ہے۔ کوئی بندہ جب تک خاموش ہے ہم اس کے متعلق کوئی اندازہ نہیں لگا سکتے لیکن جونہی وہ جس قدر زبان کھولتا ہے اسی قدر اپنے متعلق بے شمار راز فاش کرتا جاتا ہے۔ زیادہ بولنا کوئی ہنر نہیں کم گوئی ایک بہت بڑی خوبی ہے۔
شمع اپنی زبان کی بدولت جلتی ہے۔ طوطا اپنی زبان کی بدولت گرفتار ہوتا ہے۔ بقول اقبال
بھلی ہے ہم نفسو اس چمن میں خاموشی کہ خوش نواؤں کو پابند ِ دام کرتے ہیں
اسی طرح قائداعظم (رح) نے فرمایا : خدا نے انسان کو دو کان دئیے اور ایک زبان دی یعنی دو سنیں اور ایک بولیں۔خاموشی کی اس قدر تلقین کے ساتھ ساتھ انسان کی ترقی کا سارا راز بھی اس کی زبان میں ہے۔ لیکن زبان کے صحیح استعمال میں۔ زبان کا محتاط ، برموقع اور اچھا استعمال کسی جنگ کو وقوع پذیر ہونے سے روک سکتا ہے۔ اگر زبان کو غلط طور پر استعمال کیا جائے تو بہت ساری جنگیں بدزبانی کی وجہ سے ہی شروع ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی زبان پر گرفت مضبوط کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ آمین
کہہ رہا ہے شور دریا سے سمندر کا سکوت جس کا جتنا ظرف ہے اتناہی وہ خاموش ہے
بزرگ کہتے ہیں اگر گفتگو چاندی ہے تو خاموشی سونا ہے۔خاموشی اتنی نازک چیز ہے کہ نام لینے سے بھی ٹوٹ جاتی ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ آدمی اپنی صحبت سے پہچانا جاتا ہے مگر اس سے بھی بڑھ کے آدمی اپنی گفتار سے پہچانا جاتا ہے۔ کوئی بندہ جب تک خاموش ہے ہم اس کے متعلق کوئی اندازہ نہیں لگا سکتے لیکن جونہی وہ جس قدر زبان کھولتا ہے اسی قدر اپنے متعلق بے شمار راز فاش کرتا جاتا ہے۔ زیادہ بولنا کوئی ہنر نہیں کم گوئی ایک بہت بڑی خوبی ہے۔
شمع اپنی زبان کی بدولت جلتی ہے۔ طوطا اپنی زبان کی بدولت گرفتار ہوتا ہے۔ بقول اقبال
بھلی ہے ہم نفسو اس چمن میں خاموشی کہ خوش نواؤں کو پابند ِ دام کرتے ہیں
اسی طرح قائداعظم (رح) نے فرمایا : خدا نے انسان کو دو کان دئیے اور ایک زبان دی یعنی دو سنیں اور ایک بولیں۔خاموشی کی اس قدر تلقین کے ساتھ ساتھ انسان کی ترقی کا سارا راز بھی اس کی زبان میں ہے۔ لیکن زبان کے صحیح استعمال میں۔ زبان کا محتاط ، برموقع اور اچھا استعمال کسی جنگ کو وقوع پذیر ہونے سے روک سکتا ہے۔ اگر زبان کو غلط طور پر استعمال کیا جائے تو بہت ساری جنگیں بدزبانی کی وجہ سے ہی شروع ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی زبان پر گرفت مضبوط کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ آمین
0 comments:
Post a Comment