Tuesday, 2 July 2013

Decision Of Hazrat Ali R.A

Posted by Unknown on 02:35 with No comments
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فیصلہ

اصغ بن نباتہ امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ کے وفادار ساتھیوں میں سے تھے۔ وہ بیان کرتے ہیں : ” کہ ایک دن میں حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا۔ آپ مسجد کوفہ میں داخل ہوئے وہاں ہم نے دیکھا کہ ایک نوجوان رو رہا تھا اور کئی لوگ اس کے گرد جمع تھے۔ اس نوجوان نے جب امیر المومنین کو دیکھا تو فوراً آپ کے قریب آیا۔ آپ نے اس سے اس کے رونے پیٹنے کی وجہ پوچھی۔
اس نے جواب دیا” میں اس لئے آکر رو رہا ہوں کہ جب آپ مسجد میں تشریف لائیں تو میں قاضی کے فیصلے کے خلاف جو اس نے میرے دائر کردہ مقدمہ پر صادر کیا ہے۔ آپ کی خدمت میں درخواست پیش کروں تاکہ آپ میری داد رسی فرمائیں ۔
امیر المومنین رضی اللہ عنہ نے پوچھا: مسئلہ کیا ہے؟ تفصیل سے بیان کرو۔
یہ سن کر اس نوجوان نے اپنی کہانی سنائی۔ یا امیر المومنین ! میرا باپ کچھ لوگوں کے ساتھ سفر پر گیا تھا۔ جب وہ لوگ سفر سے واپس آئے تو میرا باپ ان کے ساتھ واپس نہیں آیا۔ جب میں نے ان سے اپنے والد کے نہ آنے کی وجہ پوچھی تو سب نے یہی جواب دیا کہ وہ سفر کے دوران فوت ہوگیا ہے پھر میں نے ان سے اپنے باپ کے مال کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ اس نے کوئی مال پیچھے نہیں چھوڑا۔ جناب والا مجھے اس بات کا اچھی طرح علم ہے کہ میرے باپ کے پاس کافی زیادہ مال تھا۔ بہرحال میں نے ان کے انکار کے بعد اپنا حق حاصل کرنے کےلئے قاضی کی عدالت میں مقدمہ دائر کیا۔ قاضی صاحب نے ان لوگوں سے میرے باپ کے مال کے متعلق پوچھا تو انہوں نے قاضی صاحب کو بھی وہی جواب دیا۔ اس کے بعد قاضی نے ان کے اس بیان کی ان سے قسم لی جو انہوں نے کھالی چونکہ میرے پاس کوئی ثبوت نہ تھا اس لیے قاضی نے انہیں رہا کردیا۔ یا امیر المومنین رضی اللہ عنہ! ان کا یہ فیصلہ میری سمجھ میں نہ آیا۔ اس لئے آپ کی خدمت میں اپنے حق کےلئے اپیل پیش کررہا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ حق کے مطابق فیصلہ کریں گے۔
اس نوجوان کا بیان سن کر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں اس مقدمے کا آج اس طرح فیصلہ کروں گا جس طرح آج سے پہلے سوائے حضرت داﺅد علیہ السلام کے کسی نے نہیں کیا ہوگا۔ پھر آپ نے جناب قنبر سے فرمایا کہ چند آدمی پولیس کے میرے پاس لے کر آﺅ۔ جب وہ آگئے تو انہیں حکم دیا کہ اس نوجوان کے ساتھ جاﺅ اور جو لوگ اس کے باپ کے ساتھ سفر پر گئے تھے انہیں تلاش کرکے یہاں لے آﺅ۔
تھوڑی دیر میں وہ سب آگئے تو آپ نے ان پر ایک گہری نظر ڈال کر فرمایا: تمہارا خیال ہے کہ میں تمہاری حرکتوں سے واقف نہیں ہوں۔ پھر آپ نے شرطہ(پولیس) والوں سے کہا کہ انہیں مسجد کے ستونوں سے الگ الگ باندھ دو۔ پولیس والوں نے ان لوگوں کو الگ الگ ستون سے باندھ دیا۔ اس کے بعد جناب امیر المومنین رضی اللہ عنہ نے مسجد میں موجود مسلمانوں سے کہا کہ جب میں نعرہ تکبیر بلند کروں تو تم سب بھی مل کر زور سے نعرہ لگانا اس کے بعد آپ نے اپنے کاتب کو بلایا اور اس سے فرمایا کہ یہ ملزمان جو جو بیان دیتے جائیں انہیں تحریر کرتے جاﺅ۔ اس کے بعد آپ نے ان ملزموں میں سے ایک ملزم کو بلایا۔
جب اسے امیر المومنین رضی اللہ عنہ کے سامنے لایا گیا تو آپ نے اس سے دریافت کیا کہ تم کس روز گھر سے باہر سفر کےلئے گئے تھے۔
اس نے جواب دیا ”منگل کے روز۔“پھر آپ نے پوچھا :تم کل کتنے آدمی تھے۔ تمہارے سفر کا سال، مہینہ اور دن کیا تھے؟ تم گھر سے کس وقت نکلے تھے۔ دن کو یا رات کو۔
وہ شخص آپ کے ہر سوال کا کچھ نہ کچھ جواب دیتا رہا۔ جب سوال ختم ہوگئے تو آپ نے نعرہ تکبیر بلند کیا۔ اس کے ساتھ ہی وہاں موجود تمام مسلمانوں نے نعرہ تکبیر بلند کیا۔ یہ نعرہ ان باقی ملزمان نے سنا تو وہ گھبرا گئے ان میں سے بعض کو یقین ہوگیا کہہ ان کے ساتھی نے امیر المومنین رضی اللہ عنہ کو اصل بات بتا دی ہے۔ امیر المومنین نے سوال پوچھنے کے بعد اس شخص کو اس کے ساتھیوں سے ملنے نہیں دیا۔ پولیس والے اسے مسجد سے باہر لے گئے۔
جب وہ چلا گیا تو آپ نے پولیس کے آدمیوں کو حکم دیا کہ دوسرے آدمی کو لے آئیں۔ جب اس کو لایا گیا تو آپ نے اس سے فرمایا: کیا تم سمجھتے ہو کہ میں حقیقت حال سے واقف نہیں ہوں! اب تم بتاﺅ کہ اس جوان کے باپ کی موت کس طرح ہوئی؟
اس نے جواب دیا کہ یا امیر المومنین ! میں بھی ان لوگوں میں سے ہوں جو اس کے باپ کے ساتھ سفر پر گئے تھے۔ ان میں صرف میں ہی واحد شخص تھا جو اس کے باپ کے قتل پر رضامند نہ تھا بلکہ مجھے ایسا کرنے سے نفرت بھی تھی۔ مجھے معاف کردیں ۔ میں نے کچھ نہیں کیا۔ اس شخص نے گڑگڑاتے ہوئے کہا۔
آپ نے اسے بھی ساتھیوں سے ملنے نہیں دیا۔ پھر دوسرے ملزمان کو ایک ایک کرکے بلایا اور ان کے بیانات لئے ۔ وہ سب بری طرح گھبرا گئے تھے۔ انہوں نے اس بات کا اعتراف کرلیا کہ انہوں نے دولت کی لالچ میں نوجوان کے باپ کو قتل کیا تھا۔
اس کارروائی کے بعد امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جوان کے باپ کا مال اسے واپس دلوایا اور قتل ہونے والے کی دیت بھی تمام ملزمان سے وصول کرکے اسے دے دی۔ اور اسے بہترین انصاف مہیا کیا.

0 comments:

Post a Comment