شہنشاہ رسالت مدینہ میں
حضورِ اکرم صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی آمد آمد کی خبر چونکہ مدینہ میں پہلے سے پہنچ چکی تھی اور عورتوں بچوں تک کی زبانوں پر آپ صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی تشریف آوری کا چرچا تھا۔ اس لئے اہل مدینہ آپ کے دیدار کے لئے انتہائی مشتاق و بے قرار تھے۔ روزانہ صبح سے نکل نکل کر شہر کے باہر سراپا انتظار بن کر استقبال کے لئے تیار رہتے تھے اور جب دھوپ تیز ہو جاتی تو حسرت و افسوس کے ساتھ اپنے گھروں کو واپس لوٹ جاتے۔
حضورِ اکرم صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی آمد آمد کی خبر چونکہ مدینہ میں پہلے سے پہنچ چکی تھی اور عورتوں بچوں تک کی زبانوں پر آپ صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی تشریف آوری کا چرچا تھا۔ اس لئے اہل مدینہ آپ کے دیدار کے لئے انتہائی مشتاق و بے قرار تھے۔ روزانہ صبح سے نکل نکل کر شہر کے باہر سراپا انتظار بن کر استقبال کے لئے تیار رہتے تھے اور جب دھوپ تیز ہو جاتی تو حسرت و افسوس کے ساتھ اپنے گھروں کو واپس لوٹ جاتے۔
ایک دن اپنے معمول کے مطابق اہل مدینہ آپ صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی راہ دیکھ کر واپس جا چکے تھے کہ ناگہاں ایک یہودی نے اپنے قلعہ سے دیکھا کہ تاجدار دو عالم صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی سواری مدینہ کے قریب آن پہنچی ہے۔ اس نے بہ آواز بلند پکارا کہ اے مدینہ والو! لو تم جس کا روزانہ انتظار کرتے تھے وہ کاروانِ رحمت آگیا۔ یہ سن کر تمام انصار بدن پر ہتھیار سجا کر اور وجد و شادمانی سے بے قرار ہو کر دونوں عالم کے تاجدار صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا استقبال کرنے کے لئے اپنے گھروں سے نکل پڑے اور نعرہ تکبیر کی آوازوں سے تمام شہر گونج اُٹھا۔
(مدارج النبوة ج۲ ص۶۳ وغيره)
مدینہ منورہ سے تین میل کے فاصلہ پر جہاں آج “مسجد قبا” بنی ہوئی ہے۔ ۱۲ ربیع الاول کو حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم رونق افروز ہوئے اور قبیلۂ عمرو بن عوف کے خاندان میں حضرت کلثوم بن ہدم رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کے مکان میں تشریف فرما ہوئے۔ اہل خاندان نے اس فخر و شرف پر کہ دونوں عالم کے میزبان ان کے مہمان بنے ﷲ اکبر کا پر جوش نعرہ مارا۔ چاروں طرف سے انصار جوشِ مسرت میں آتے اور بارگاہ رسالت میں صلاۃ و سلام کا نذرانہ عقیدت پیش کرتے۔ اکثر صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم جو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے پہلے ہجرت کر کے مدینہ منورہ آئے تھے وہ لوگ بھی اس مکان میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ حضرت علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ بھی حکم نبوی کے مطابق قریش کی امانتیں واپس لوٹا کر تیسرے دن مکہ سے چل پڑے تھے وہ بھی مدینہ آ گئے اور اسی مکان میں قیام فرمایا اور حضرتِ کلثوم بن ہدم رضی ﷲ تعالیٰ عنہ اور ان کے خاندان والے ان تمام مقدس مہمانوں کی مہمان نوازی میں دن رات مصروف رہنے لگے۔
(مدارج النبوة ج ۲ ص۶۳ و بخاری ج۱ ص۵۶۰)
ﷲ اکبر! عمرو بن عوف کے خاندان میں حضرت سید الانبیاء صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم و سید الاولیاء اور صالحین صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے نورانی اجتماع سے ایسا سماں بندھ گیا ہو گا کہ غالباً چاند، سورج اور ستارے حیرت کے ساتھ اس مجمع کو دیکھ کر زبانِ حال سے کہتے ہوں گے کہ یہ فیصلہ مشکل ہے کہ آج انجمن آسمان زیادہ روشن ہے یا حضرت کلثوم بن ہدم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مکان؟ اور شاید خاندان عمر و بن عوف کا بچہ بچہ جوشِ مسرت سے مسکرا مسکرا کر زبانِ حال سے یہ نغمہ گاتا ہو گا کہ
اُن کے قدم پہ میں نثارجن کے قدوم ناز نے
اُجڑے ہوئے دیار کو رشک چمن بنا دیا
اَللّٰهمَّ صَلِّ وَ سَلِّمْ وَ بَارِكْ عَلٰي سَيِّدِنَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ آلِه
وَ صَحْبِه وَ بَارِكْ وَ سَلِّمْ
اَلْحَمْدُ ِﷲِ! حضور رحمتِ عالم صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی ’’مکی زندگی‘‘ آپ پڑھ چکے۔ اب ہم آپ صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی ’’مدنی زندگی‘‘ پر سنہ وار واقعات تحریر کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔ آپ بھی اس کے مطالعہ سے آنکھوں میں نور اور دل میں سرور کی دولت حاصل کریں۔
(مدارج النبوة ج۲ ص۶۳ وغيره)
مدینہ منورہ سے تین میل کے فاصلہ پر جہاں آج “مسجد قبا” بنی ہوئی ہے۔ ۱۲ ربیع الاول کو حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم رونق افروز ہوئے اور قبیلۂ عمرو بن عوف کے خاندان میں حضرت کلثوم بن ہدم رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کے مکان میں تشریف فرما ہوئے۔ اہل خاندان نے اس فخر و شرف پر کہ دونوں عالم کے میزبان ان کے مہمان بنے ﷲ اکبر کا پر جوش نعرہ مارا۔ چاروں طرف سے انصار جوشِ مسرت میں آتے اور بارگاہ رسالت میں صلاۃ و سلام کا نذرانہ عقیدت پیش کرتے۔ اکثر صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم جو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے پہلے ہجرت کر کے مدینہ منورہ آئے تھے وہ لوگ بھی اس مکان میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ حضرت علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ بھی حکم نبوی کے مطابق قریش کی امانتیں واپس لوٹا کر تیسرے دن مکہ سے چل پڑے تھے وہ بھی مدینہ آ گئے اور اسی مکان میں قیام فرمایا اور حضرتِ کلثوم بن ہدم رضی ﷲ تعالیٰ عنہ اور ان کے خاندان والے ان تمام مقدس مہمانوں کی مہمان نوازی میں دن رات مصروف رہنے لگے۔
(مدارج النبوة ج ۲ ص۶۳ و بخاری ج۱ ص۵۶۰)
ﷲ اکبر! عمرو بن عوف کے خاندان میں حضرت سید الانبیاء صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم و سید الاولیاء اور صالحین صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے نورانی اجتماع سے ایسا سماں بندھ گیا ہو گا کہ غالباً چاند، سورج اور ستارے حیرت کے ساتھ اس مجمع کو دیکھ کر زبانِ حال سے کہتے ہوں گے کہ یہ فیصلہ مشکل ہے کہ آج انجمن آسمان زیادہ روشن ہے یا حضرت کلثوم بن ہدم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مکان؟ اور شاید خاندان عمر و بن عوف کا بچہ بچہ جوشِ مسرت سے مسکرا مسکرا کر زبانِ حال سے یہ نغمہ گاتا ہو گا کہ
اُن کے قدم پہ میں نثارجن کے قدوم ناز نے
اُجڑے ہوئے دیار کو رشک چمن بنا دیا
اَللّٰهمَّ صَلِّ وَ سَلِّمْ وَ بَارِكْ عَلٰي سَيِّدِنَا وَ مَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّ آلِه
وَ صَحْبِه وَ بَارِكْ وَ سَلِّمْ
اَلْحَمْدُ ِﷲِ! حضور رحمتِ عالم صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی ’’مکی زندگی‘‘ آپ پڑھ چکے۔ اب ہم آپ صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی ’’مدنی زندگی‘‘ پر سنہ وار واقعات تحریر کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔ آپ بھی اس کے مطالعہ سے آنکھوں میں نور اور دل میں سرور کی دولت حاصل کریں۔
0 comments:
Post a Comment