Sunday 2 June 2013

Sustenance

Posted by Unknown on 21:50 with No comments
رزق

ایک بار کسی جنگل میں تین چار برسوں تک بارش نہ ہوئی ۔شدید خشک سالی نے جنگل کو قحط زدہ بنا دیا یہاں تک کے جنگل کے بیشتر جانور علاقہ چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔جو رہ گئے اُنہیں زندگی بچانا مشکل ہو رہا تھا۔اُن میں جنگل کی وہ کمزور چڑیا بھی شامل تھی۔ یہ بے چاری بھی کئی دن سے بھوکی پیاسی تھی ۔اس آس پر کہ شائد کسی درخت سے اُسے کچھ کھانے کو مل جائے ،اُس نے کئی میل کی مسافت طے کرلی لیکن اُسے کہیں کوئی ایسا پیڑ دکھائی نہیں دیا جو اُس کی بھوک اور پیاس کا سامان بنتا ۔اُس نے آسمان کی طرف دیکھا اور اللہ سے رزق کے لئے فریاد کی۔اسی دوران اچانک ایک شیر کی غرّاہٹ سنائی دی اور دوسرے ہی لمحے ایک موٹا تازہ ہرن شیر کے پنجوں میں تھا۔شیر خوب پیٹ بھرنے کے بعد ایک طرف ہوکے بیٹھ گیا۔اب بچے کھچے ہرن کو کھانے کے لئے جنگل کے دیگر جانور جمع تھے۔شیر نے اچانک منہ کھولا اُس کے دانتوں میں پھنسے گوشت کے ریشے اُسے بے چین کر رہے تھے۔
درخت پر بیٹھی چڑیا یہ سارا منظر دیکھ رہی تھی ۔اچانک اُس نے ایک اڑان بھری اور سیدھی شیر کے منہ پر آکر بیٹھ گئی۔اب وہ اُس کے دانتوں سے ریشے نکالتی اور کھاتی جاتی شیر کو چڑیا کا یہ عمل انتہائی راحت پہنچارہا تھا۔یہاں تک کہ چڑیا پوری طرح سیر ہوگئی “

آپ کو پتہ ہے جب شیر ہرن کو کھارہا تھا تو دل ہی دل میں اپنی طاقت سے خوش ہورہا تھا لیکن وہ نہیں جانتا تھا کہ آسمانوں کے مالک نے اس ہرن کو شیر کے سامنے بھیجا ہی اس ننھی چڑیا کے لئے تھا وہ ہرن چڑیا کی فریاد کا نتیجہ تھا ۔“ْ
" یا تو آپ ثابت کردیں کہ جو کچھ آپ کو ملا ہے صحت، عقل، حسن، طاقت یہ سب آپ کی محنت کی وجہ سے ہے اور آپ جب پیدا ہوئے تھے تو یہ سارے اسباب اور زندگی بھر کا کھانا ساتھ لے کے آئے تھے تو ٹھیک ہے،آپ اپنی مرضی کر سکتے ہیں لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو آپ کو اُن کا بھی خیال رکھنا ہے جو ضرورت مند ہیں۔خاص طور پر ایسے افراد جن کا شمار آپ کے قریب ترین لوگوں میں ہوتا ہے۔کیا آپ لوگوں کی انا کے لئے اتنا کافی نہیں ہے کہ ایک شخص ہاتھ پھیلائے مجبوری وناداری کی حالت میں آپ کے سامنے کھڑا ہے ۔
اگر آپکو اللہ نے نوازا ہے ،طاقت ور بنایا ہے تو شیر کی طرح اپنے رزق کے حصول کو اپنی طاقت، ذہانت اور محنت کا ذریعہ مت قرار دو۔
دیکھو۔ تمہارے ارد گرد بہت سارے انسانوں کی مثال اُس چڑیا کی سی ہے ،جو کمزور ہیں،بے بس ہیں اور اللہ سے رزق کے لئے فریاد کرتے ہیں۔بہ ظاہر یہ رزق اُن سے دور ہوتا ہے لیکن اُن کے توسط سے آپ کو مل رہا ہوتا ہے۔“
حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے
" جو حق دار ہے اُس کو بھی دے اور جو ناحق کا مانگنے والا ہے اُسے بھی دے کیونکہ تجھے جو ناحق کا مل رہا ہے کہیں وہ ملنا بند نہ ہوجائے

0 comments:

Post a Comment