Wednesday 10 July 2013

اورنگ زیب عالمگیر

مسلمانوں کے ایک بادشاہ بہت سادہ زندگی بسر کرتے تھے- جب وہ تخت پر بیٹھے تو ان کے لئے ایک خاص باورچی رکھا گیا- جو طرح طرح کے کھانے پکانے میں ماہر تھا- بادشاہ نے اسے بلایا اور کہا: ”میرے لئے طرح طرح کے کھانے تیار نہیں کئے جائیں گے‘ ایک وقت معمولی سی کھچڑی اوردوسرے وقت معمولی سی روٹی پکا دیا کرو“.

باورچی بہت حیران ہو اکہ یہ کیسا بادشاہ ہے‘ چند دن اس نے کھانا پکایا اور پھر ملازمت چھوڑ دی ‘ کیونکہ ایک ماہر باورچی اس قدر سادہ کھانا کیسے پکاتا- پھر یہ کہ اسے خود کچھ کھانے کو نہیں ملتا تھا- اور نہ ہی کوئی انعام وغیرہ ملتا تھا
دوسرا باورچی رکھا گیا‘ وہ بھی چند دن بعد تنگ آکر چلا گیا-
غرض کوئی باورچی ٹکنے کا نام نہیں لیتا تھا- بادشاہ تنگ آگئے- آخر ایک باورچی کو ملازم رکھا گیا – اس سے معاہدہ کیا گیا کہ کم از کم ایک سال سے پہلے وہ ملازمت چھوڑ کر نہیں جائے گا- باورچی کو حالات کا پتا نہیں تھا‘ اس نے خوشی سے معاہدہ کرلیا- وہ تو خوش ہورہا تھا کہ بادشاہ کا باورچی بن رہا ہوں اور یہ کوئی معمولی عہد ہ تو ہے نہیں‘ جب اسے وہ معمولی سی کھچڑی اور سادہ سی روٹی پکانا پڑی توبہت گھبرایا- اس نے سوچا ‘میں تو مصیبت میں پھنس گیا‘ معاہدہ کر چکا ہوں- ایک سال سے پہلے تو یہاں سے جانہیں سکوں گا‘ لگا ترکیبیں سوچنے کہ کسی طرح یہاں سے نکل بھاگوں-

آخر اس نے سوچا‘ ایسی تدبیر کی جائے کہ بادشاہ خود اسے ملازمت سے نکال دے- اب جواس نے کھچڑی پکائی‘ اس میں چاولوں کے برابر نمک ڈال دیا- کھچڑی بادشاہ کے سامنے رکھی گئی- بادشاہ نے کھچڑی کھالی‘ باورچی کو نظر بھر کر دیکھا‘ لیکن کچھ نہ کہا- دوسرے دن باورچی نے کھچڑی پکائی اورنمک بالکل نہ ڈالا- اس روز بھی اس نے کھچڑی کھالی‘ باورچی کو نظر بھر کر دیکھا- کچھ نہ کہا- تیسرے دن باورچی نے درست مقدار میں نمک ڈالا- بادشاہ نے کھچڑی کھائی‘ نظر بھر کر باورچی کو دیکھااور نہایت پر سکون آواز میں بولے:

”دیکھو میاں! ایک طریقہ اختیار کر لو‘ یا توروزانہ برابر کا نمک ڈالا کرو یا بالکل نہ ڈالا کرو یا درست مقدار میں نمک ڈالا کرو‘ باربار نمک کی مقدار بدلنے کی تکلیف کیوں اٹھاتے ہو- باورچی ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہو گیا اور بولا: ” جان کی امان پاؤں تو کچھ عرض کروں “ بادشاہ نے کہا: ” ہاں کہو‘ کیا کہنا چاہتے ہو؟“ باورچی نے عرض کی:

”بادشاہ سلامت! میں سات لڑکیوں کا باپ ہوں- شاہی باورچی کہلاتا ہوں‘ لوگوں کو مجھ سے بڑی امیدیں ہیں اور میری حالت یہ ہے کہ فاقوں مرتا ہوں- میں نے تو یہ سمجھ کر ملازمت کی تھی کہ آپ کی ذاتی خدمت کروں گا‘ تو کچھ ہی عرصے میں مال دار بن جاؤں گا- مگر یہاں تو سال بھر تک فاقے ہی کرنا ہوں گے‘ مہربانی فرما کر اس خادم کو آزاد کردیں“ اس کی ساری بات سن کر بادشاہ نے کہا: ”تمہیں اچھے کھانوں کی ضرورت ہے یا روپے کی“ اس نے فوراً کہا: ” روپے کی ضرورت زیادہ ہے“ یہ سن کر بادشاہ نے کہا :

” اچھا! آج تم آدھ پاؤ کھچڑی زیادہ پکا لینا!“ باورچی کچھ نہ سمجھا ‘ آدھ پاؤ کھچڑی زیادہ پکالی- بادشاہ نے اپنے حصے کی کھچڑی کھالی‘ باقی ماندہ زائد کھچڑی کے اس نے سات حصے کئے- ایک ایک طشتری میں ایک ایک حصہ رکھا‘ پھر باورچی کو حکم دیا: ” ان طشتریوں کو ایک تھال میں رکھ کر ہمارے ساتو ں وزیروں کو ہماری طرف سے یہ تحفہ پہنچادو“

وزیروں کو جب اطلاع ملی کہ بادشاہ نے ان کے لئے تحفہ بھیجا ہے تو بہت خوش ہوئے- شاہی باورچی کا زبردست استقبال کیا گیا‘ ساتوں وزیروں نے باورچی کو ایک ایک لاکھ روپے نقد انعام دیا‘ ساز و سامان بھی ساتھ دیا- باورچی یہ سات لاکھ روپے اورسازو سامان لے کر بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوا- بادشاہ نے پوچھا: ” کہو! گزارے کی کوئی صورت نکل آئی یا نہیں؟“ باورچی نے ہاتھ جوڑ کر عرض کی : ” آ پ کی توجہ سے عمر بھر کے گزارے کی صورت بن گئی ہے‘ اب کوئی حاجت نہیں رہی“ بادشاہ نے کہا- ” اچھا تو پھر آئندہ کھچڑی میں نمک درست مقدار میں ڈالا کرنا“

آپ سوچ رہے ہوں گے ‘ یہ بادشاہ کون تھا- لیجئے ہم ان کانام آپ کو بتائے دیتے ہیں- ان کا نام تھا اورنگ زیب عالمگیر

0 comments:

Post a Comment