Wednesday, 10 July 2013

Tarab-e-Mahal

Posted by Unknown on 04:46 with No comments
مٹی کا گھر:تراب محل

مٹی کے رشتے ناطے،مٹی کے قسمیں وعدے سب مٹی میں مل گئے ۔تراب محل ڈھے گیا ۔
مٹی کا وہ ننھا سامحل اپنے آپ میں کل کائنات تھا ۔ ایک مکمل کائنات ۔وہ تمام نظامہائے زندگی جن کا انسان تصور کر سکتا ہے بلکہ جو اس کے تصوروخیال سے پرے ہیں سب کے سب اس میں موجود تھے ۔ روشنی کے دو مینار بینائی بنت بصارت لمحہ بہ لمحہ قرب و جوار کی ہر تصویر پر نظر رکھتی تھی اور نہ صرف نقش محفوظ کر لیا جاتا تھا بلکہ وقت ِضرورت اسے حاضرِ خدمت بھی کر دیا جاتا تھا ۔ بینائی بنت بصارت روتی بھی تھی اور ہنستی بھی تھی ۔بے زبان ہونے کے باوجود وہ بہت کچھ بولتی اور ہمیشہ سچ بولتی تھی ۔اس کی چمک زندگی کی علامت اور اس کا پتھرا جانا موت کا اعلان سمجھا جاتا تھا ۔

عبدالسمیع آوازکی لہروں کا تجزیہ کرنے میں ہمہ تن گوش رہتے تھے ۔آواز کا اتار چڑھاؤ ۔نرمی سختی ۔ غنائیت و کر ختگی ۔ہر ایک سے ان کی شناسائی تھی ۔ زبان و بیان کو معنیٰ و مفہوم کا خوبصورت لباس وہی فراہم کرتے تھے ۔لیکن آواز کے حسین و نازک تار کسی اور مقام سے چھیڑے جاتے تھے ۔نغمہ بیگم نام کا آلۂ صوت ان جڑواں بھائیوں کے درمیان حلق میں نصب تھا ۔یہاں سے حسبِ ضرورت فرحت و مسرت یا غم و اندوہ دونوں طرح کے جذبات کا اظہار ہوتا تھا ۔نشرو اشاعت کا مایہ ٔ ناز شاہکار کبھی تو الفت و محبت کا نغمہ بکھیرتا اور کبھی نفرت و عداوت کے شعلہ برساتا ۔ہر کیفیت کی ترسیل پر اسے کلی مہارت حاصل تھی ۔نغمہ بیگم کے پاس زبان نامی ایک تیز طرار باندی بھی تھی ۔ حالانکہ اسے بتیس دانتوں کے درمیان محصور کر کے رکھا گیا تھا اس کے باوجود یہ نرم و نازک زبان بڑی چالاکی سے اپنے فرائض انجام دیا کرتی تھی ۔آواز کو الفاظ کا جامہ پہنا کر ہوا میں اچھالنا اس کی اولین ذمہ داری تھی ۔اس کی کمان سے نکلا ہوا تیر کبھی واپس نہ آتا اور اس تیر سے لگنے والا زخم مشکل ہی سے بھر پاتا تھا ۔

اس کاایک اور اضافی فرضِ منصبی بھی تھا۔ کھانے کو ترنوالہ بنا کر نگل جانا ۔لذتِ کام و دہن کا صدر مقام یہی تھی۔باہر کی حرارت اسے سرخ کر دیتی تو اندر کی گرمی سے اس پر چھالے پڑ جاتے۔اس کی گرمی ٔ گفتار سب کچھ بدمزہ کر دیتی ۔ماہر طبیب اسے دیکھ کر اندر کا حال معلوم کر لیتے اور ظالم حکمراں صدائے حق کو کچلنے کی خاطراس بیچاری کوتلوے سے اکھاڑ کے چیل کووں کے آگے ڈال دینے کی دھمکی بھی اسی کے توسط سے دیتے تھے ۔ زبان کی آرائش و زیبائش کے پیشِ نظر اس کے صدر دروازے کونازک لبوں سے سجایا گیا تھا جنہیں دیکھ کر شاعروں کی گلاب کی پنکھڑی یاد آجاتی تھی ۔ اس بابِ دہن سے اوپر دو روشندان نصب تھے ۔ہوا کا داخلہ یہیں سے ہوتا تھا ۔پہلے اس کی چھان بین ہوتی اور پھر اس کے بعد آگے پھیپھڑوں کی جانب بڑھنے کا پروانہ عطا کیا جاتا ۔یہاں نہ صرف ہوا کو صاف کیا جاتا بلکہ اس کا درجہ حرارت بھی درست کر دیا جاتا تاکہ وہ اندر کی گرمی سے ہم آہنگ ہو جائے ۔

ان اونچے روشندانوں کے اندر ایک ننھا سا گھونسلہ ابو شامہ کا بھی تھا ۔ہوا کے دوش پر سوار خوشبو کا کوئی حسین جھونکا جب ابو شامہ سے مصافحہ کرتا تو وہ اس سے سارےمحل کو معطر کر دیتا نیز جب کبھی وہ بدبو کی لپیٹ میں آتا تو محل کی فضا کو مکدرّ ہونے سے بچانے کی خاطر اپنے آپ کو سکیڑ لیتا ۔اس عظیم الشان محل کا فیوز بھی روشندان کے اندر نصب تھا ۔اگر کہیں کوئی دھماکہ ہوتا یاروزدار جھٹکا لگتا تو ہوشیار خبردار کرنے والے سرخ چراغ یہیں سےروشنی بکھیرنے لگتے ۔

اس محل کے اندر ایک نادِ روزگار پمپ لگا ہوا تھا جوباہرسےنظر تو نہیں آتا تھا لیکن اپنا کام بدستور کرتا رہتا تھا ۔ وہ نہ کبھی رکتا تھا اور نہ تھکتا تھا بس چلتا رہتا تھا ۔اس پمپ کی بدولت لطیف و پاکیزہ ہوامحل کے اندر آتی اور کثیف و آلودہ ہوا باہر پھینک دی جاتی ۔اندر آنے والی ہوا محض چند لمحات کیلئے پھیپھڑوں میں قیام کرتی لیکن اس مختصر سی مدت میں حیات بخش ایندھن یعنی آکسیجن کو خون کے اندر جذب کر لیا جاتا اور ساتھ جسم کافاضل کاربن اس کے آکسائیڈ کی شکل میں ہوا میں ملا دیا جاتا تاکہ اسکی نکاسی ممکن ہو سکے ۔اس آمدورفت کے باعث یہ مٹی کا مکان ہر دم تازہ دم رہتا تھا ۔

غذا اور پانی کے ساتھ بھی یہی معاملہ تھا کہ ان میں موجود مفید اجزا ودیگر نمکیات کو کشید کرنے کا ایک خودکار کارخانہ معدے کے اندر نصب تھا ۔اس کے مختلف شعبہ جات حسب ضرورت مختلف کیمیاوی عمل کرنے کی ذمہ داری بحسن و خوبی ادا کرتے ۔رطوبتیں خارج ہوتیں اور غذا کے سارے اجزا کوایک دوسرے الگ کر کے قابلِ استعمال ایندھن میں تبدیل کر دیتیں ۔نظام ِ انہظام ان سر گرمیوں کی نگرانی کرتا اور پھر محصول کو دو حصوں میں تقسیم کر دیتا ۔وقت کی ضرورت کے لحاظ سے ایندھن کی مناسب ترین مقدار نظام نقل وحمل کے حوالے کر دی جاتی اور خون کی نلیوں کے ذریعہ اسے رگ رگ میں پہنچا دیا جاتا ۔ فاضل ایندھن کو محفوظ صورت میں بدل کرمحل کے اندر موجود مختلف گوداموں میں رکھوا دیا جاتا تاکہ وقتِ ضرورت کام آئے ۔اس کارخانے میں بننے والا فاسد مادے کونظام استخراج کےذریعہ باہر کا راستہ دکھلا دیا جاتا تھا ۔

نقل و حرکت میں بنیادی ضروریات کی حد تک یہ مکان خود کفیل تھا ۔اس کے دو پہیوں کا نام پاؤں پاؤں تھا ۔میاں پاؤں پاؤں کی رفتا محدود ضرور تھی لیکن ان کا سفر لامحدود اور ناگزیر تھا ۔نہ جانے کب سے یہ مصروف ِ سفر تھے اور لاکھوں میل کا فاصلہ طے کر لینے کے باوجود ان کے اندر موجود جذبۂ عمل کوئی کمی واقع نہیں ہوتی تھی ۔ لاکھ سواریاں کے ایجاد ہوجانے کے باوجودان کا احتیاج باقی رہتا تھا ۔

لین دین کیلئے اس محل میں دست و بازو آراستہ و پیوستہ تھے ۔ ان دونوں کے درمیان بلا کی مفاہمت تھی۔کبھی تو لینے کیلئے دونوں ایک ساتھ آسمان کی طرف اٹھ جاتے اور کبھی دینے کیلئے زمین کی جانب ایسے بڑھتے کہ ایک دیتا تو دوسرے کو خبر نہ ہوتی ۔ محل کے عزت و وقار کا راز انہیں کے اندر پنہاں تھا۔ ان کی تعریف میں شاعر نے کیا خوب کہا تھا ؎
ہاتھ ہے اللہ کا ، بندۂ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں ، کارکشا کارساز
روز و شب جاری و ساری خلیات کی تعمیر تخریب کی مدد دے یہ محل ارتقا کی مراحل طے کرتا ،اپنی منزل کی جانب رواں دواں رہتا تھا ۔اس تعمیر میں غیر معمولی انضباط اور اس کی تخریب میں احتیاط کا پہلو غالب ہوتا تھا ۔ ان سارے حرکات سکنات میں خیرو برکت کا سر چشمہ تعمیر و تخریب کے درمیان پایا جانے والااعتدال و توازن تھا ۔اس نظم و ضبط کو قائم رکھنے کی ذمہ داری سلطان اعظم دماغ شاہ پر تھی ۔ویسے تو عمومی طور ہر اقتدار کی زمامِ کار انہیں کے ہاتھوں میں تھی یہ اور بات ہے کہ خود سلطان پر ملکہ دلربا حکمرانی کرتی تھی ۔سچ تو یہ ہے کہ محل کا ساری رونق اسی ملکہ کی مرہونِ منت تھی ۔وہی محل کو شاد باد رکھتی تھی اور جب وہ غمگین ہو جاتی تو سب غمگین ہو جاتے تھے۔

شہنشاہ اور ان کی ملکہ ایک دوسرے سے بے پناہ محبت کرتے تھے ۔یہی جذبۂ الفت محل کی روحِ رواں تھی ۔ دونوں ایک دوسرے پر جان چھڑکتے تھے اور ایک لمحہ کیلئے بھی اک دوجے سے غافل نہ ہوتے تھے ۔ ایک دوسرے کی یاد ۔ ایک دوسرے کا ذکر ۔ ایک دوسرے کی فکر یہی ان کا مقصدِ حیات تھا اور یہی زندگی کی سوغات تھی ۔گھر کے تمام افراد بشمول مصاحبین کے جن کا اوپر تعارف کرایا گیا ان دونوں کا بڑا احترام کرتے تھے ۔ان کی تعریف وتوصیف کو اپنے لئے باعثِ سعادت سمجھتے اور ان کی خدمت و فرمانبرداری کو مقصدِوجود خیال کرتے تھے ۔اس اعتمادِ باہم کے باعث تعاون و اشتراک کی ایک ایسی فضا تھی جس میں سب لوگ ایک دوسرے کو آرام و آسائش پہنچانے کی تگ و دو میں لگے رہتے تھے ۔کسی ایک کوہونے والی تکلیف کوسارے کے سارے یکساں طور پر محسوس کرتے اور مل جل کر اس سے نجات کی سعی کرتے ، انہیں اسباب کی بناء پر امن و آشتی اور چین و سکون اس محل کےمستقل مہمان بنے ہوئے تھے ۔

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰ ۰۰۰۰۰۰۰۰۰

وقت کے ساتھ مٹی کےمحل کی حالت بگڑی تو اس دگر گوں صورتحال نے ہمسایوں میں تشویش پیدا کردی ۔ بستی کے اندر یہ خبر پھیل گئی کہ اس گلشن کے خاکستر ہونے کا وقت آلگا ہے ۔ پاس پڑوس کے لوگ جب عیادت کی غرض سے حاضر ہوئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ سلطان دماغ شاہ تخت نشین نہیں ہے بلکہ اپنی سوگوار رعایہ کے درمیان زمین پر دو زانو بیٹھا ہوا ہے ۔وہ ان کا حوصلہ بڑھا رہا ہے اوراپنے صفحۂ ہستی سے مٹ جانے کے غم کو ہلکا کر رہا ہے ۔تراب محل اپنے پاس پڑوس میں خاصہ مقبول و معروف تھا ۔ہر کوئی اس کے شریف النفسی کی قسمیں کھاتا تھااور اس کے اندر پائے جانے والے امن و امان کی مثال دیا کرتا تھا ۔ تراب محل کے بلند اخلاق اور سیرت کردار کا سبھی لوہا مانتے تھے اس لئے کوئی نہیں چاہتا تھا کہ یہ محل اجڑ جائے۔عیادت کرنے والوں کا تانتہ لگا ہوا تھا ،سبھی اس کی حیات جاودانی کے متمنی تھے ۔دعاؤں کی خاطر ایک ساتھ کئی ہاتھ آسمان کی جانب اٹھتے تھے اور جب وہ جھکتے تو نئے ہاتھ اٹھ جاتے ۔فرشتۂ اجل اس منفرد منظر سے حیران و سشدر تھا ۔ اس نے انسانی لباس پہن کر سوگوار لوگوں سے پوچھا کیا تم مجھے جانتے ہو ؟کیا تمہیں پتہ ہے کہ میں کون ہوں ؟

لوگوں نے کہا ہم نہیں جانتے مگر جاننا چاہتے ہیں کہ آپ کون ہیں ؟

میں تمہارا وہی دوست ہوں جس کے ساتھ تمہاری ملاقات روز ابد سے طے ہے ۔نہ صرف وقتِ ملاقات بلکہ جائے ملاقات بھی پتھر کی لکیر ہے کہ اس میں کوئی ردو بدل ممکن نہیں ہے ۔ میں تم سب کو انفرادی طور پر جانتا ہوں اور تم سب سے ملنے ضرور آؤں گا ۔

اس تحیر انگیز تعارف نے لوگوں کے تجسس میں مزید اضافہ کر دیا وہ سوچنے لگے کہ یہ ہمیں کیونکر جانتا ہے جبکہ ہم نے آج سے پہلے اس کو دیکھا تک نہیں اور اس سے زیادہ پریشان کن سوال یہ تھا کہ یہ ہم سے ملنے کیوں آئیگا ؟
آپ ہم سے ملنے آئیں گے ؟ کیا آپ اس ملاقات کی غرض و غایت پر روشنی ڈالیں گے ؟تاکہ ہم اس کی حسب ِ حال تیاری کر سکیں ،ایک شخص نے سوال کیا ۔

میں تم سے اس لئے ملنے آؤں گا تاکہ تمہیں مٹی کے اس بندھن سے آزاد کردوں ، مٹی کے ان رشتوں ناطوں کو توڑ دوں جن میں تم دن رات جکڑے رہتے ہو ۔

کیا آپ تمام رشتوں کو توڑنے کی طاقت اپنے اندر رکھتے ہیں ؟

بے شک میں تمام رشتوں کو یکلخت توڑ دیتا ہوں یہاں تک کہ سانسوں اور دھڑکن کا اٹوٹ رشتہ بھی اس میں شامل ہے لیکن صرف ایک رشتہ ایسا ہے جو میرے قبضۂ قدرت میں نہیں ہے ۔

اچھا وہ کون سا ناطہ ہے ؟

وہ رشتہ ! رشتۂ محبت ہے ، میں وقتی طور پر محبت کی ڈور کو توڑ دیتا ہوں اور محبت کرنے والے د لوں کے درمیان فاصلہ پیدا کردیتا ہوں لیکن اس سے وہ رشتہ کمزور ہونے کے بجائے مزید مضبوط ہوجاتا ہے ۔ مجھے یہ بھی پتہ ہے کہ محبت کا یہ رشتہ پھر ایک باراس طرح قائم ہوگاکہ پھر کبھی نہ ٹوٹے
وہ کیسے ؟

دراصل بات یہ ہے کہ جو جس سے محبت کرتا ہے روزِ محشر وہ اس کے ساتھ اٹھایا جائیگا اور پھر وہ ہمیشہ ساتھ رہیں گے ۔

لیکن جن سے ہم محبت کرتے ہیں ان سے ہمیں کون ملائے گا ؟

وہی ہستی جس نے تمہیں محبت کا شعور بخشا اور اپنےمحبوب سے متعارف کرایا ۔
اچھا تو کیا یہ ملاقات ان سے بھی ہو سکے گی جن سے انسان دنیا میں کبھی بھی نہ مل سکا ہو؟

کیوں نہیں ؟اس لئے کہ اس روز تو سبھی اگلے پچھلے میدان ِحشر میں جمع ہو ں گے ۔انسان زمان و مکان کی قید و بند سے آزاد ہوجائیگا ۔
تراب محل اس تمام گفتگوکو نہایت صبر و سکون کے ساتھ سن رہا تھا ۔ اس نے نہایت پر وقار انداز میں بصد احترام سوال کیا کہ حضرت اگرکوئی اسی ذاتِ والا صفات سے محبت کرتا ہوجس نے اسے محبت کا شعور بخشا تو کیا خالق حقیقی اپنے اس بندے سے ملاقات کرے گا ؟

ہاں ہاں کیوں نہیں ۔ یہ اس کا وعدہ ہے اور اس سے زیادہ اپنے عہد کا پورا کرنے والا کوئی اور نہیں ہے ۔

لیکن وہ ملاقات لمحاتی تو نہیں ہو گی جیسی کہ عہدِ الست کے موقع پر ہوئی تھی ؟
جی نہیں!عہد ِالست کا واقعہ قبل از بجا آوریٔ عہدتھا۔لیکن جو پاک نفوس اس وعدے کو دنیا کے اندرنبھا نے میں کامیاب ہوگئے ۔ جواپنے رب کی یاد سے کبھی غافل نہیں ہوئے اور اگر ہوئے بھی تو اس کی جانب مسلسل پلٹتے رہے یہاں تک اس سے جاملے اور اس کی خوشنودی حاصل کر لی توایسوں سے اس کی ملاقات دائمی ہوگی ۔ کبھی نہ ختم ہونے والی ابدی ملاقات ۔

اچھا اگر ایسا ہے تو وقت ضائع کرنے سے کیا حاصل ؟ تاخیر سے کیا فائدہ ؟ میں نہ جانے کب سے اس لمحہ کا انتظار کر رہا ہوں ؟

اس سوال نے فرشتۂ اجل کو لاجواب کر دیا ۔

لوگ دیکھ رہے تھے کہ مٹی کا عارضی گھرلمحہ بہ لمحہ خاک نشین ہوتاجارہا ہے لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ دائمی بنیادوں پر تراب محل کی تعمیر کا آغاز ہو چکا تھا

0 comments:

Post a Comment