ہجرت کا پانچواں سال
جنگ ِ اُحد میں مسلمانوں کے جانی نقصان کا چرچا ہو جانے اور کفار قریش اور یہودیوں کی مشترکہ سازشوں سے تمام قبائل کفار کا حوصلہ اتنا بلند ہو گیا کہ سب کو مدینہ پر حملہ کرنے کا جنون ہو گیا۔ چنانچہ ۵ ھ بھی کفر و اسلام کے بہت سے معرکوں کو اپنے دامن میں لئے ہوئے ہے۔ ہم یہاں چند مشہور غزوات و سرایا کا ذکر کرتے ہیں۔
سب سے پہلے قبائل ”انمار و ثعلبہ” نے مدینہ پر چڑھائی کرنے کا ارادہ کیا جب حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو اِس کی اطلاع ملی تو آپ صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے چار سو صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا لشکر اپنے ساتھ لیا اور ۱۰ محرم ۵ ھ کو مدینہ سے روانہ ہو کر مقامِ ”ذات الرقاع” تک تشریف لے گئے لیکن آپ صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی آمد کا حال سن کر یہ کفار پہاڑوں میں بھاگ کر چھپ گئے اس لئے کوئی جنگ نہیں ہوئی۔ مشرکین کی چند عورتیں ملیں جن کو صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے گرفتار کر لیا۔ اس وقت مسلمان بہت ہی مفلس اور تنگ دستی کی حالت میں تھے۔ چنانچہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ سواریوں کی اتنی کمی تھی کہ چھ چھ آدمیوں کی سواری کے لئے ایک ایک اونٹ تھا جس پر ہم لوگ باری باری سوار ہو کر سفر کرتے تھے پہاڑی زمین میں پیدل چلنے سے ہمارے قدم زخمی اور پاؤں کے ناخن جھڑ گئے تھے اس لئے ہم لوگوں نے اپنے پاؤں پر کپڑوں کے چیتھڑے لپیٹ لئے تھے یہی وجہ ہے کہ اس غزوہ کا نام ”غزوہ ذات الرقاع” (پیوندوں والا غزوہ) ہو گیا۔
(بخاری غزوه ذات الرقاع ج۲ ص۵۹۲)
بعض مؤرخین نے کہا کہ چونکہ وہاں کی زمین کے پتھر سفید و سیاہ رنگ کے تھے اور زمین ایسی نظر آتی تھی گویا سفید اور کالے پیوند ایک دوسرے سے جوڑے ہوئے ہیں، لہٰذا اس غزوہ کو ”غزوہ ذات الرقاع‘‘ کہا جانے لگا اور بعض کا قول ہے کہ یہاں پر ایک درخت کا نام ”ذات الرقاع” تھا اس لئے لوگ اس کو غزوہ ذات الرقاع کہنے لگے، ہو سکتا ہے کہ یہ ساری باتیں ہوں۔
(زرقانی جلد۲ ص۸۸)
مشہور امام سیرت ابن سعد کا قول ہے کہ سب سے پہلے اس غزوہ میں حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ”صلوٰۃ الخوف” پڑھی۔
(زُرقانی ج۲ ص۹۰ و بخاری باب غزوه ذات الرقاع ج۲ ص۵۹۲)
جنگ ِ اُحد میں مسلمانوں کے جانی نقصان کا چرچا ہو جانے اور کفار قریش اور یہودیوں کی مشترکہ سازشوں سے تمام قبائل کفار کا حوصلہ اتنا بلند ہو گیا کہ سب کو مدینہ پر حملہ کرنے کا جنون ہو گیا۔ چنانچہ ۵ ھ بھی کفر و اسلام کے بہت سے معرکوں کو اپنے دامن میں لئے ہوئے ہے۔ ہم یہاں چند مشہور غزوات و سرایا کا ذکر کرتے ہیں۔
سب سے پہلے قبائل ”انمار و ثعلبہ” نے مدینہ پر چڑھائی کرنے کا ارادہ کیا جب حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو اِس کی اطلاع ملی تو آپ صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے چار سو صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا لشکر اپنے ساتھ لیا اور ۱۰ محرم ۵ ھ کو مدینہ سے روانہ ہو کر مقامِ ”ذات الرقاع” تک تشریف لے گئے لیکن آپ صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی آمد کا حال سن کر یہ کفار پہاڑوں میں بھاگ کر چھپ گئے اس لئے کوئی جنگ نہیں ہوئی۔ مشرکین کی چند عورتیں ملیں جن کو صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے گرفتار کر لیا۔ اس وقت مسلمان بہت ہی مفلس اور تنگ دستی کی حالت میں تھے۔ چنانچہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ سواریوں کی اتنی کمی تھی کہ چھ چھ آدمیوں کی سواری کے لئے ایک ایک اونٹ تھا جس پر ہم لوگ باری باری سوار ہو کر سفر کرتے تھے پہاڑی زمین میں پیدل چلنے سے ہمارے قدم زخمی اور پاؤں کے ناخن جھڑ گئے تھے اس لئے ہم لوگوں نے اپنے پاؤں پر کپڑوں کے چیتھڑے لپیٹ لئے تھے یہی وجہ ہے کہ اس غزوہ کا نام ”غزوہ ذات الرقاع” (پیوندوں والا غزوہ) ہو گیا۔
(بخاری غزوه ذات الرقاع ج۲ ص۵۹۲)
بعض مؤرخین نے کہا کہ چونکہ وہاں کی زمین کے پتھر سفید و سیاہ رنگ کے تھے اور زمین ایسی نظر آتی تھی گویا سفید اور کالے پیوند ایک دوسرے سے جوڑے ہوئے ہیں، لہٰذا اس غزوہ کو ”غزوہ ذات الرقاع‘‘ کہا جانے لگا اور بعض کا قول ہے کہ یہاں پر ایک درخت کا نام ”ذات الرقاع” تھا اس لئے لوگ اس کو غزوہ ذات الرقاع کہنے لگے، ہو سکتا ہے کہ یہ ساری باتیں ہوں۔
(زرقانی جلد۲ ص۸۸)
مشہور امام سیرت ابن سعد کا قول ہے کہ سب سے پہلے اس غزوہ میں حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ”صلوٰۃ الخوف” پڑھی۔
(زُرقانی ج۲ ص۹۰ و بخاری باب غزوه ذات الرقاع ج۲ ص۵۹۲)
0 comments:
Post a Comment