Sunday 18 August 2013

ہجرت کا پانچواں سال

غزوہ بنی قریظہ

حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم جنگ خندق سے فارغ ہو کر اپنے مکان میں تشریف لائے اور ہتھیار اتار کر غسل فرمایا، ابھی اطمینان کے ساتھ بیٹھے بھی نہ تھے کہ ناگہاں حضرت جبریل علیہ السلام تشریف لائے اور کہا کہ یا رسول ﷲ! صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم آپ نے ہتھیار اتار دیا لیکن ہم فرشتوں کی جماعت نے ابھی تک ہتھیار نہیں اتارا ہے ﷲ تعالیٰ کا یہ حکم ہے کہ آپ صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم بنی قریظہ کی طرف چلیں کیونکہ ان لوگوں نے معاہدہ توڑ کر علانیہ جنگ خندق میں کفار کے ساتھ مل کر مدینہ پر حملہ کیا ہے۔
(مسلم باب جواز قتال من نقض العهد ج ۲ ص۹۵)

چنانچہ حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اعلان کر دیا کہ لوگ ابھی ہتھیار نہ اتاریں اور بنی قریظہ کی طرف روانہ ہو جائیں، حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے خود بھی ہتھیار زیب تن فرمایا، اپنے گھوڑے پر جس کا نام ”لحیف” تھا سوار ہو کر لشکر کے ساتھ چل پڑے اور بنی قریظہ کے ایک کنویں کے پاس پہنچ کر نزول فرمایا۔
(زرقانی ج۲ ص۱۲۸)

بنی قریظہ بھی جنگ کے لئے بالکل تیار تھے چنانچہ جب حضرت علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ ان کے قلعوں کے پاس پہنچے تو ان ظالم اور عہد شکن یہودیوں نے حضورِ اکرم صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو (معاذ ﷲ) گالیاں دیں حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کے قلعوں کا محاصرہ فرما لیا اور تقریباً ایک مہینہ تک یہ محاصرہ جاری رہا یہودیوں نے تنگ آکر یہ درخواست پیش کی کہ ” حضرت سعد بن معاذ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ ہمارے بارے میں جو فیصلہ کر دیں وہ ہمیں منظور ہے۔“

حضرت سعد بن معاذ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ جنگ خندق میں ایک تیر کھا کر شدید طور پر زخمی تھے مگر اسی حالت میں وہ ایک گدھے پر سوار ہو کر بنی قریظہ گئے اور انہوں نے یہودیوں کے بارے میں یہ فیصلہ فرمایا کہ

“لڑنے والی فوجوں کو قتل کر دیا جائے، عورتیں اور بچے قیدی بنا لئے جائیں اور یہودیوں کا مال و اسباب مال غنیمت بنا کر مجاہدوں میں تقسیم کر دیا جائے۔“

حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کی زبان سے یہ فیصلہ سن کر ارشاد فرمایا کہ یقینا بلا شبہ تم نے ان یہودیوں کے بارے میں وہی فیصلہ سنایا ہے جو اللہ کا فیصلہ ہے۔
(مسلم جلد۲ ص۹۵)

اس فیصلہ کے مطابق بنی قریظہ کی لڑاکا فوجیں قتل کی گئیں اور عورتوں بچوں کو قیدی بنا لیا گیا اور ان کے مال و سامان کو مجاہدین اسلام نے مال غنیمت بنا لیا اور اس شریر و بدعہد قبیلہ کے شر و فساد سے ہمیشہ کے لئے مسلمان پرامن و محفوظ ہو گئے۔

یہودیوں کا سردار حیی بن اخطب جب قتل کیلئے مقتل میں لایا گیا تو اس نے قتل ہونے سے پہلے یہ الفاظ کہے کہ

اے محمد! (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) خدا کی قسم! مجھے اس کا ذرا بھی افسوس نہیں ہے کہ میں نے کیوں تم سے عداوت کی لیکن حقیقت یہ ہے کہ جو خدا کو چھوڑ دیتا ہے، خدا بھی اس کو چھوڑ دیتا ہے، لوگو! خدا کے حکم کی تعمیل میں کوئی مضائقہ نہیں بنی قریظہ کا قتل ہونا یہ ایک حکم الٰہی تھا یہ (توراۃ) میں لکھا ہوا تھایہ ایک سزا تھی جو خدا نے بنی اسرائیل پر لکھی تھی۔
(سيرت ابن هشام غزوه بنو قريظه ج۳ ص۲۴۱)

یہ حیی بن اخطب وہی بدنصیب ہے کہ جب وہ مدینہ سے جلا وطن ہو کر خیبر جا رہا تھا تو اس نے یہ معاہدہ کیا تھا کہ نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی مخالفت پر میں کسی کو مدد نہ دوں گا اور اس عہد پر اس نے خدا کو ضامن بنایا تھا لیکن جنگ خندق کے موقع پر اس نے اس معاہدہ کو کس طرح توڑ ڈالا یہ آپ گزشتہ اوراق میں پڑھ چکے کہ اس ظالم نے تمام کفار عرب کے پاس دورہ کرکے سب کو مدینہ پر حملہ کرنے کے لئے ابھارا پھر بنو قریظہ کو بھی معاہدہ توڑنے پر اکسایا پھر خود جنگ خندق میں کفار کے ساتھ مل کر لڑائی میں شامل ہوا۔

0 comments:

Post a Comment