Sunday, 6 January 2013

حضرت سعد الاسود رضی اللہ عنہ                 

حضرت سعد الاسود رضی اللہ عنہ کا اصل نام تو سعد تھا لیکن ان کی غیر معمولی سیاہ رنگت کی وجہ سے لوگ ان کو ’’سعدالاسود‘‘ یا ’’اسود‘‘ کہا کرتے تھے (جیسا کہ ہمارے ملک میں سیاہ فام آدمی کو لوگ کالو یا کالا کہہ کر پکارتے ہیں)۔ حضرت سعدالاسود رضی اللہ عنہ نے بارگاہِ رسالت میں عرض کیا: ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نکاح کرنا چاہتا ہوں لیکن کوئی شخص میری بدصورتی کے سبب مجھ کو رشتہ دینے پر راضی نہیں ہوتا۔ میں نے بہت سے لوگوں کو پیام دیے لیکن سب نے رد کردیے۔ ان میں سے کچھ یہاں موجود ہیں اور کچھ غیر حاضر ہیں۔‘‘ رحمت ِعالم صلی اللہ علیہ وسلم جانتے تھے جوشِ ایمان اور اخلاص فی الدین کے اعتبار سے اس کا مرتبہ بہت بلند ہے۔ اپنے ایک جاں نثار کی بیکسانہ درخواست سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ رحیمی نے گوارا نہ کیا کہ لوگ اس کو محض اس وجہ سے ٹھکرائیں کہ وہ ظاہری حسن و جمال سے محروم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سعد گھبراو نہیں، میں خود تمہاری شادی کا بندوبست کرتا ہوں، تم اسی وقت عمرو رضی اللہ عنہ بن وہب ثقفی کے گھر جائو اور سلام کے بعد ان سے کہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کی بیٹی کا رشتہ میرے ساتھ کردیا ہے۔‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد سن کر حضرت سعد الاسود رضی اللہ عنہ شاداں و فرحاں حضرت عمرو رضی اللہ عنہ بن وہب کے گھر کی طرف چل دیئے۔

حضرت سعد
رضی اللہ عنہ نے ان کے گھر پہنچ کر انہیں سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے مطلع کیا تو ان کو بڑی حیرت ہوئی کہ میری ماہ پیکر ذہین وفطین لڑکی کی شادی ایسے کریہہ منظر شخص سے کیسے ہوسکتی ہے! انہوں نے سوچے سمجھے بغیر حضرت سعد رضی اللہ عنہ کا پیام رد کردیا اور بڑی سختی کے ساتھ انہیں واپس جانے کے لیے کہا۔ سعادت مند لڑکی نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ اور اپنے باپ کی گفتگو سن لی تھی، جونہی حضرت سعد رضی اللہ عنہ واپس جانے کے لیے مڑے وہ لپک کر دروازے پر آئی اور آواز دی: ’’اللہ کے بندے واپس آئو، اگر واقعی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں بھیجا ہے تو میں بخوشی تمہارے ساتھ شادی کے لیے تیار ہوں، جس بات سے اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم راضی ہیں میں بھی اس پر راضی ہوں۔‘‘ اس اثناء میں حضرت سعد رضی اللہ عنہ آگے بڑھ چکے تھے، معلوم نہیں انہوں نے لڑکی کی بات سنی یا نہیں، بہرصورت بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوکر سارا واقعہ عرض کردیا۔ اُدھر ان کے جانے کے بعد نیک بخت لڑکی نے اپنے والد سے کہا: ’’ابا قبل اس کے کہ اللہ آپ کو رسوا کرے آپ اپنی نجات کی کوشش کیجیے۔ آپ نے بڑا غضب کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی پروا نہ کی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فرستادہ کے ساتھ درشت سلوک کیا۔‘‘ عمرو رضی اللہ عنہ بن وہب نے لڑکی کی بات سنی تو اپنے انکار پر سخت پشیمان ہوئے اور ڈرتے ہوئے بارگاہِ نبوی میں حاضر ہوئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو دیکھ کر فرمایا: ’’تم ہی نے میرے بھیجے ہوئے آدمی کو لوٹایا تھا۔‘‘ عمرو رضی اللہ عنہ بن وہب نے عرض کیا ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بے شک میں نے اس آدمی کو لوٹایا تھا لیکن یہ غلطی لاعلمی میں سرزد ہوئی۔ میں اس شخص سے واقف نہ تھا، اس لیے اس کی بات کا اعتبار نہ کیا اور اس کا پیام نامنظور کردیا، خدا کے لیے مجھے معاف فرما دیجیے۔ مجھے اپنی لڑکی کی شادی اس شخص سے بسرو چشم منظور ہے۔‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرو رضی اللہ عنہ بن وہب کا عذر قبول فرمایا اور حضرت سعد الاسود رضی اللہ عنہ سے مخاطب ہوکر فرمایا: ’’سعد میں نے تمہارا عقد بنت ِ عمرو بن وہب سے کردیا۔ اب تم اپنی بیوی کے پاس جاو۔‘

رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد سن کر حضرت سعد
رضی اللہ عنہ کو بے حد مسرت ہوئی، بارگاہِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے اٹھ کر سیدھے بازار گئے اور ارادہ کیا کہ نوبیاہتا بیوی کے لیے کچھ تحائف خریدیں۔ ابھی کوئی چیز نہیں خریدی تھی کہ ان کے کانوں میں ایک منادی کی آواز پڑی جو پکار رہا تھا: ’’اے اللہ کے شہسوارو، جہاد کے لیے سوار ہوجائو اور جنت کی بشارت لو۔‘‘ سعد رضی اللہ عنہ نوجوان تھے۔ نئی نئی شادی ہوئی تھی۔ دل میں ہزار امنگیں اور ارمان تھے۔ بارہا مایوس ہونے کے بعد شادی کا مژدہ فردوسِ گوش ہوا تھا، لیکن منادی کی آواز سن کر تمام جذبات پر جوشِ ایمانی غالب آگیا اور نوعروس کے لیے تحائف خریدنے کا خیال دل سے یکسر کافور ہوگیا، جو رقم اس مقصد کے لیے ساتھ لائے تھے، اس سے گھوڑا، تلوار اور نیزہ خریدا اور سر پر عمامہ باندھ کر سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں غزوہ پر جانے والے مجاہدین میں جاشامل ہوئے۔ اس سے پہلے نہ ان کے پاس گھوڑا تھا، نہ نیزہ و تلوار، اور نہ انہوں نے کبھی عمامہ اس طرح باندھا تھا، اس لیے کسی کو معلوم نہ ہوا کہ یہ سعدالاسود رضی اللہ عنہ ہیں۔ میدان جہاد میں پہنچ کر سعد رضی اللہ عنہ ایسے جوش و شجاعت کے ساتھ لڑے کہ بڑے بڑے بہادروں کو پیچھے چھوڑ دیا۔ ایک موقع پر گھوڑا اَڑ گیا تو اس کی پشت پر سے کود پڑے اور آستینیں چڑھاکر پیادہ پا ہی لڑنا شروع کردیا۔ اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ہاتھوں کی سیاہی دیکھ کر شناخت کرلیا اور آواز دی ’’سعد‘‘۔ لیکن سعد رضی اللہ عنہ اُس وقت دنیا و مافیہا سے بے خبر اس جوش و وارفتگی کے ساتھ لڑرہے تھے کہ اپنے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز کی بھی خبر نہ ہوئی۔ اسی طرح دادِ شجاعت دیتے ہوئے جُرعۂ شہادت نوش کیا
۔ رحمت ِعالم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت سعدالاسود
رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی لاش کے پاس تشریف لائے، ان کا سر اپنی گود میں رکھ کر دعائے مغفرت کی اور پھر فرمایا: ’’میں نے سعد رضی اللہ عنہ کا عقد عمرو بن وہب کی لڑکی سے کردیا تھا، اس لیے اس کے متروکہ سامان کی مالک وہی لڑکی ہے۔ سعد رضی اللہ عنہ کے ہتھیار اور گھوڑا اسی کے پاس پہنچادو اور اس کے ماں باپ سے جاکر کہہ دوکہ اب خدا نے تمہاری لڑکی سے بہتر لڑکی سعد کو عطا کردی، اور اس کی شادی جنت میں ہوگئی۔‘‘

0 comments:

Post a Comment