Monday, 7 January 2013

خلیفہ سلیمان بن عبد الملک کا بھائی خلیفہ ہشام بن عبد الملا بن مروان بیت اللہ شریف کے حج کو آیا- طواف کے دوران  میں اس کی نگاہ زاہد و متقی اور عالم ربانی سالم بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ پر پڑی جو اپنا جوتا ہاتھ میں اٹھائے ہوئے خانہ کعبہ کا طواف کررہے تھے- ان کے اوپر ایک کپڑا اور ایک عمامہ تھا جس کی قیمت 13 درھم سے زیادہ نہیں تھی-

خلیفہ ہشام نے کہا:

"کوئی حاجت ہو تو فرمائیں  "-

سالم بن عبداللہ
رضی اللہ عنہ نے کہا:

" مجھے اللہ شرم آرہی ہےکہ میں اس کے گھر میں ہوتے ہوئے کسی اور کے سامنے دست سوال دراز کروں"-

یہ سننا تھا کہ خلیفہ کے چہرے کا رنگ سرخ ہونے لگا- اس نے سالم بن عبداللہ
رضی اللہ عنہ کے جواب میں اپنی سبکی محسوس کی- جب سالم بن عبداللہ حرم شریف سے باہر نکلے تو وہ بھی ان کے پیچھے ہی حرم سے نکل پڑا اور راستہ میں ان کے سامنے آکر کہنے لگا:

" اب تو آپ بیت اللہ سے باہر نکل چکے ہیں ، کوئی حاجت ہو تو فرمائيں (بندہ حاضر ہے)"-

سالم بن عبداللہ گویا ہوئے:

" آپ کی مراد دنیاوی حاجت سے ہے یا اخروی حاجت سے؟!"-

حلیفہ ہشام نے جواب دیا:

"اخروی حاجت کو پورا کرنا تو میرے بس میں نہیں؛ البتہ دنیاوی ضرورت پوری کرسکتا ہوں؛ فرمائيں-

سالم بن عبداللہ کہنے لگے:

" میں نے دنیا تو اس سے بھی نہیں ماںگی ہے جس کی یہ ملکیت ہے- پھر بھلا میں اس شخص سے دنیا کیوں طلب کرسکتا ہوں جس کا وہ خود مالک نہیں؟!"-
یہ کہہ کر اپنے گھر کی طرف چل دیے
-

سنہرے حروف از عبد المالک مجاہد

0 comments:

Post a Comment