Friday, 25 January 2013

سلطان محمود غزنو ی رحمتہ اللہ علیہ کا انصاف        

ایک دن سلطان محمود غزنو ی رحمتہ اللہ علیہ حسبِ معمول دربار میں بیٹھا ہوا تھا ۔ وزرا ءو امرا ءدست بستہ حاضر تھے۔ عام لو گ اپنی اپنی عرضیاں پیش کررہے تھے اور ایک شخص نے آکر عرض کی ” میر ی شکایت نہایت سنگین ہے اور کچھ اس قسم کی ہے کہ میں اسے برسرِ دربار عرض نہیں کرسکتا “ سلطان یہ سن کر فوراً اٹھ کھڑے ہوئے اور سائل کو خلوت میں لیجا کر پو چھا کہ تمہیں کیا شکایت ہے ؟ سائل نے عرض کیا ایک عرصے سے آپ کے بھانجے نے یہ طریقہ اختیار کر رکھا ہے کہ وہ مسلح ہو کر میرے مکان پرآتا ہے اور مجھے مار پیٹ کر باہر نکال دیتا ہے اور خود جبراً میرے گھر میں گھس کر میری حسین بیوی کے ساتھ زبردستی شب بھر داد عیش دیتا ہے ۔ غزنی کی کوئی عدالت ایسی نہیں، جس میں میں نے اس ظلم کی فریاد نہ کی ہو لیکن کسی کو انصاف کرنے کی جرات نہیں ہوئی ہر کوئی آپ کے بھانجے کا سن کر چپ کر جاتا ہے ۔ جب میں ہرطر ف سے مایو س ہو گیا تو آج مجبو راً جہاں پناہ کی بارگاہ ِ عالیہ میں انصاف کے لیے حاضر ہو ا ہو ں ۔ شہنشاہ عالی کی بے لاگ انصاف پروری ، فریاد رسی اور رعایا سے بے پناہ شفقت پر بھروسہ کر کے میں نے اپنا حال عرض کر دیا ہے۔ خالق حقیقی نے آپکو اپنی مخلو ق کا محافظ و نگہبان بنایا ہے ۔ قیا مت میں رعایا اور کمزوروں پر مظالم کے نتیجے میں آپ خدائے قہار کے رو برو جوابدہ ہونگے اگر آپ نے میرے حال پر رحم فرما کر انصاف کیا تو بہتر ہے ورنہ میں اس معاملے کو منتقم حقیقی کے سپرد کر کے اس کے رو برو عنایت فیصلہ تک انتظار کر ونگا۔
سلطان محترم پر اس واقعہ کا اتنا اثر ہوا کہ وہ بے اختیار آبدیدہ ہو گئے اور سائل سے کہا ” تم سب سے پہلے میرے پاس کیو ں نہ آئے ؟ تم نے ناحق اب تک یہ ظلم کیوں برداشت کیا؟ “ سائل نے عرض کیا ” میں عرصے سے اس کو شش میں لگا ہو ا تھا کہ کسی طر ح با رگاہ سلطانی تک پہنچ جا ﺅ ں مگر در بانو ں اور چوبداروں کی قدغن نے کامیاب نہ ہو نے دیا ۔ خد اتعالیٰ ہی جا نتا ہے کہ آج بھی کس تدبیر سے یہاں تک پہنچا ہو ں ۔مجھ جیسے غریبو ں اور مظلو مو ں کو یہ با ت کہاں نصیب ہے کہ جب چاہیں بے دھڑک دربارِ سلطانی میں حاضر ہو جائیں اور سلطا ن کو اپنے دردِ دل کی کہانی سنا سکیں۔ “
سلطان نے سائل کو اطمینان اور دلاسہ دے کر تاکید کی کہ ”اس ملاقات اور گفتگو کا کسی سے ذکر نہ کر نا اور جس وقت بھی وہ شخص تمہارے گھر آئے اسی وقت مجھے اس کی اطلاع کر دینا ۔ میں اس کو ایسی عبرت نا ک سزا دونگا کہ آئندہ دوسروں کو ایسے مظالم کرنیکی کی جرات نہ ہو سکے گی ۔ “
سائل نے عرض کیا ” مجھ ایسے بے کس و بے یار و مددگار کے لیے یہ کیونکر ممکن ہو سکے گا کہ جب چاہو ں بلا کسی مزاحمت کے خدمتِ سلطانی میں حاضر ہو جاﺅ ں اور مطلع کر سکو ں۔“ سلطان نے یہ سن کر دربانو ں کو طلب کیا اور سائل کو ان سے روشناس کر ا کے حکم دیا ۔ ’ ’یہ شخص جس وقت بھی آئے ہمارے پا س پہنچا دیا جائے اور کسی طر ح کی مزاحمت نہ کی جائے ۔ “ دو راتیں گزر گئیں مگر سائل نہ آیا ۔ سلطان کو تشویش ہو ئی کہ نہ معلوم غر یب مظلو م کو کیا حادثہ پیش آیا ۔ وہ اسی فکر میں پریشان تھا کہ تیسری رات کو سائل دوڑتا ہو ا آستانہ شاہی پر پہنچا ۔
اطلاع ملتے ہی سلطان فی الفور با ہر نکلا اور سائل کے ہمراہ اسکے گھر پہنچ کر اپنی آنکھو ں سے وہ سب کچھ دیکھ لیا جو سائل نے اسے بتلایا تھا ۔ پلنگ کے سر ہا نے شمع جل رہی تھی ۔ سلطان نے شمع گل کر دی اور خود خنجر نکال کر اس کا سر اڑا دیا ۔ اس کے بعد شمع روشن کرائی مقتول کا چہرہ دیکھ کر بے ساختہ سلطان کی زبان سے الحمد اللہ نکلا اور پھر سائل سے کہا کہ پانی لاؤ ، سائل جلدی سے پانی لایا تو سلطان نے پانی پی کر سائل سے کہا کہ اب تم اطمینان سے اپنے گھر میں آرام کر و ۔ اب انشا ءاللہ تمہیں کوئی تکلیف نہ پہنچے گی ۔ میری وجہ سے اب تک تم پر جو مظالم ہو ئے خدا کے لیے انہیں معا ف کر دو ۔ “ یہ کہہ کر سلطا ن عالی وقار رخصت ہونا ہی چاہتا تھا کہ سائل نے دامن پکڑ کر عرض کیا بند گانِ عالی نے جس طر ح ایک مظلو م کیساتھ انصاف فر مایا حتی کہ اپنی قرابت داری و خو ن کا بھی مطلق خیال نہ کیا، اللہ تعالیٰ آپ کو اسکی جزائے خیر عطا فرمائے او ر اجر عظیم عنائت فرمائے ۔ اگر اجازت مرحمت فرمائی جائے تو ایک بات معلوم کرنا چاہتا ہو ں وہ یہ کہ آپ نے پہلے شمع گل کی اور پھر روشن کرا کر مقتول کا سر دیکھ کر الحمد اللہ فرما یا اور اس کے فوراً بعد پانی طلب فرمایا ا سکا کیا سبب تھا ؟
سلطان نے ہر چند ٹالنا چاہا مگر سائل کے اصرار پر اسے بتلا نا پڑا ۔ ” شمع گل کرنیکا مقصد یہ تھا کہ مبادا روشنی میں اس کا چہرہ دیکھ کر بہن کے خون کی محبت مجھے سز ا دینے سے با ز رکھے اور الحمد اللہ کہنے کا سبب یہ تھا کہ مقتول اپنے آپ کو میرا بھا نجا بتا کر تمہیں شاہی تعلق سے مرعو ب کر کے اپنی خوا شاتِ نفسا نی کو پورا کرنے کے لیے را ستہ صاف رکھنا چاہتا تھا ۔ خدا وند کریم کا ہزار ہا شکرہے کہ محمو د کے متعلقین کا اس شرمنا ک بے ہو دگی سے کوئی تعلق نہیں ہے یہ شخص میرا بھانجا تو کیا میرا رشتہ دار بھی نہیں ہے اور پانی مانگنے کی وجہ یہ تھی کہ جب سے تم نے اپنا وا قعہ سنا یا تھا میں نے عہد کر لیا تھا کہ جب تک تمہا را انصاف نہ کر لو نگا آب و دانہ مجھ پر حرا م ہے ۔ اب چو نکہ میں اپنے فر ض سے سبکدوش ہو چکا تھا اور تشنگی کا شدید غلبہ تھا اس لیے میں پانی مانگنے پر مجبو رہو گیا ۔
یہ کہہ کر سلطان محمود غزنوی اس کے گھر سے نکل آیا اور تاریخ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امر ہوگیا

0 comments:

Post a Comment