Saturday, 23 February 2013


یہ تیری جھیل سی آنکھوں میں رتجگوں کے بھنور

یہ تیرے پھول سے چہرے پہ چاندنی کی پھوار

یہ تیرے لب، یہ دیارِ یمن کے سرخ عقیق

یہ آئینے سی جبیں، سجدہ گاہِ لیل و نہار

یہ بےنیاز گھنے جنگلوں سے بال تیرے

یہ پھولتی ہوئی سرسوں کاعکس گالوں پر

یہ دھڑکنوں کی زباں، بولتے ہوئے ابرو

کمند ڈال رہے ہیں میرے خیالوں پر

یہ نرم نرم سے ہاتھوں کا گرم گرم لمس

گداز جسم پہ بلور کی تہوں کا سماں

یہ انگلیاں، یہ زمرد تراشی شاخیں

کِرن کِرن ترے دانتوں پے موتیوں کا گماں

یہ چاندنی میں دُھلے پاؤں جب بھی رقص کریں

فضا میں اَن گنِے گھنگھرو چھنکنے لگتے ہیں

یہ پاؤں جب کسی رستے میں رنگ برسائیں

تو موسموں کے مقدر چمکنے لگتے ہیں

تیری جبیں پہ گر حادثوں کے نقش ابھریں

مزاجِ گردشِ دوراں بھی لڑکھڑا جائے

تُو مسکرائے تو صُبحیں تجھے سلام کریں

تُو رو پڑے تو زمانے کی آنکھ بھر آئے

تیرا خیال ہے خوشبو، تیرا لباس ہے کرن

تُو خاک زاد ہے یا آسماں سے اتری ہے

میں تجھ کو دیکھ کے خود سے سوال کرتا ہوں

یہ موجِ رنگ زمیں پہ کہاں سے اتری ہے

میں کس طرح تجھے لفظوں کا پیرہن بخشوں

میرے ہنر کی بلندی تو سر نگوں ہے ابھی

تیرے بدن کے خدوخال میرے بس میں نہیں

میں کس طرح تجھے سوچوں،یہی جنوں ہے ابھی

ملے ہیں یوں تو کئی رنگ کے حسیں چہرے

مگر میں بے نیاز رہا موجہ صبا کی طرح

تیری قسم تیری قربت کے موسموں کے بغیر

میں بھی زمین پہ اکیلا پھرا دیوانے کی طرح

مگر میں شہرِِ حوادث کے سنگ زادوں سے

یہ آئینہ سا بدن کس طرح بچاؤں گا

مجھے یہ ڈر ہے کسی روز تیرے کرب سمیت

میں خود بھی دکھ کے سمندرمیں ڈوب جاؤں گا

مجھے یہ ڈر ہے کہ تیرے تبسّموں کی پھوار

یوں ہی وفا کا تقاضا، حیا کا طور نہ ہو

تیرا بدن، تیری دنیا ہے منتظر جس کی

میں سوچتا ہوں میری جاں وہ کوئی اور نہ ہو

میں سوچتا ہوں مگر سوچنے سے کیا حاصل !!!

یہ تیری جھیل سی آنکھوں میں رتجگوں کے بھنور ۔ ۔ ۔ ۔

0 comments:

Post a Comment