Tuesday 7 May 2013

Cry of Slave Woman

Posted by Unknown on 08:41 with No comments

لونڈی کی پُکار

مشھور عباسی خلیفہ معتصم باللہ (833ءتا 843ء) کے دربار خلافت میں ایک شخص کھڑا ہوا- عرض کی: امیر المومنین میں عموریۃ سے آرہا ہوں۔ میں نے ایک عجیب منظر دیکھا۔ ایک موٹے عیسائی نے ایک مسلمان لونڈی کے چہرے پر زناٹے دار تھپڑ رسید کیا- لونڈی نے بے بسی کے عالم مین آہ بھری اور بے اختیار اس کے منہ سے نکلا:
{ وا معتصماہ}
” ہائے خلیفہ معتصم تم کہاں ہو!”

اس موٹے عیسائی نے لونڈی کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا:

{ وما یقدر علیہ المعتصم! یجیء علی ابلق وینصرک؟!}
” معتصم باللہ اس پکار کا کیوں کر جواب دے سکتا ہے! آیا وہ چتکبرے گھوڑے پر سوار ہو کر تیرے پاس آئے گا اور تیری مدد کرے گا؟”

پھر اس لونڈی کے رخسار پر کھینچ کر ایک دوسرا تھپڑ رسید کیا جس سے وہ تلملا اٹھی۔
یہ سن کر خلیفہ معتصم باللہ نے اس آدمی سے دریافت کیا:
” عموریہ کس سمت میں ہے؟”

اس آدمی نے عموریہ کی سمت اشارہ کرکے بتلایا کہ عموریہ اس طرف ہے۔
خلیفہ معتصم باللہ نے اپنا رخ عموریہ کی سمت موڑا اور کہا:

{ لبیک، ایتھا الجاریۃ! البیک، ھاذا المعتطم باللہ اجابک}
“میں تیری آواز پر حاضر ہوں اے لونڈی، معتصم تیری پکار کا جواب دینے آرہا ہے”

پھر خلیفہ نے عموریہ کے لیے بارہ ھزار چتکبرے گھوڑے تیار کرائے اور ایک لشکر جرار لے کر عموریہ پہنچا اور اس کا محاصرہ کرلیا۔ جب اس محاصرہے کی مدت طول پکڑ گئی تو اس نے مشیروں سے مشورہ طلب کیا۔ انہوں نے کہا: “ہمارے خیال کے مطابق آپ عموریہ کو انگور اور انجیر کے پکنے کے زمانے ہی میں فتح کرسکتے ہیں-” چونکہ اس فصل کے پکنے کے لیے ایک لمبا وقت درکار تھا، اس لیے خلیفہ پر یہ مشورہ بڑا گراں گزرا۔

خلیفہ اسی رات اپنے خاص سپاہیوں کے ہمراہ جپکے چپکے لشکر کے معائنے کے لیے نکلا تاکہ مجاہدین کی باتیں سن سکے کہ اس بارے میں ان کی چہ میگوئیاں کس نتیجے پر پہنچنے والی ہیں۔ خلیفہ کا گزر ایک خیمے کے پاس سے ہوا جس میں ایک لوہار گھوڑوں کی نعلیں تیار کررہا تھا- بٹھی گرم تھی- وہ گرم گرم سرخ لوہے کی نعل نکالتا تو اس کے سامنے ایک گنجا اور بدصورت غلام بڑی تیزی سے ہتھوڑا چلاتا جاتا۔
لوہار بڑی مہارت سے نعل کو الٹتا پلٹتا اور اسے پانی سے بھرے برتن میں ڈالتا جاتا۔
اچانک غلام نے بڑے زور سے ہتھوڑا مارا اور کہنے لگا:

{ فی راس المعتصم}
” یہ معتصم کے سر پر”
لوہار نے غلام سے کہا: تم نے بڑا برا کلمہ کہا ہے۔ اپنی اوقات میں رہو- تمہیں اس بات کا کوئی حق نہیں کہ خلیفہ کے بارے میں ایسا کلمہ کہو۔
غلام کہنے لگا: ” تمہاری بات بلکل درست ہے مگر ہمارے خلیفہ بالکل عقل کا کورا ہے- اس کے پاس اتنی فوج ہے۔ تمام تر قوت اور طاقت ہونے کی باوجود حملہ میں تاخیر کرنا کسی صورت مناسب نہیں- اللہ کی قسم! اگر خلیفہ مجھے یہ ذمہ داری سونپ دیتا تو میں کل کا دن عموریہ شہر میں گزارتا”۔
لوہار اور اس کے غلام کا یہ کلام سن کر خلیفہ معتصم باللہ کو بڑا تعحب ہوا۔ پھر اس نے چند سپاہیوں کو اس خیمے پر نظر رکھنے کا حکم دیا اور اپنے خیمے کی طرف واپس ہوگیا۔

صبح ہوئی تو ان سپاہیوں نے اس ہتھوڑے مارنے والے غلام کو خلیفہ معتصم باللہ کی حدمت میں حاضر کیا۔
خلیفہ نے پوچھا:
” رات جو باتیں میں نے سنی ہیں، ان باتوں کے کرنے کی تمہیں جرات کیسے ہوئی؟
غلام نے جواب دیا:
” آپ نے جو کچھ سنا ہے، وہ سچ ہے۔ اگر آپ جنگ میں مجھے کمانڈر بنادیں تو مجھے امید ہے کہ اللہ تعالی عموریہ کو میرے ہاتھوں فتح کروا دے گا۔”
خلیفہ نے کہا:
“جاؤ میں نے فوج کی کمان تمہیں سونپ دی۔”
چنانچہ اللہ تعالی نے عموریہ کو اس غلام کے ہاتھوں فتح کرادیا۔ پھر معتصم باللہ شہر کے اندر داخل ہوا۔ اس اس نے فورا اس آدمی کو تلاش کیا جو لونڈی کے متعلق اس کے دربار تک شکایت اور پیغام لے گیا تھا اور اس سے فرمایا: جہاں تو نے اس لونڈی کو دیکھا تھا وہاں مجھے لے چلو۔ وہ آدمی خلیفہ کو وہاں لے گیا اور لونڈی کےاس کے گھر سے بلا کر خلیفہ کی حدمت میں حاضر کیا۔ اس وقت خلیفہ نے لونڈی سے کہا:

{ یا جاریۃ! ھل اجابک المعتطم؟}
” لڑکی! بتا معتصم تیری مدد کو پہنچا یا نہیں؟”

اس لڑکی نے اثبات میں اپنا سر ہلادیا۔ اور اب تلاش اس موٹے عیسائی کی ہوئی جس نے اس لڑکی کو تھپڑ رسید کیا تھا۔ اس کو پکڑ کر لایا گیا اور اس لڑکی سے کہا گیا کہ آج وقت ہے تم اس سے اپنا بدلہ لے لو ۔۔ اللہ اکبر

محاضرات الابرا: 2/63، قصص العرب :3/449

اقتباس: سنہرے حروف از: عبد المالک

0 comments:

Post a Comment