Saturday 11 May 2013

Story Of 'Aam-ul-Feel'

Posted by Unknown on 00:06 with No comments

قصہ عام الفیل کا

اس کا نام تھا ابرہہ۔ ملک یمن میں اسے حبشہ کے بادشاہ نے گورنر مقرر کیا تھا۔
ابرہہ نے دیکھا کہ ہر سال لوگ بیت اللّٰہ کا حج کرنے ملک عرب کے شہر مکہ مکرمہ جاتے ہیں۔ ابرہہ نے سوچا کہ کیوں نہ وہ بھی ایسا ہی عبادت خانہ بنائے۔ لوگ دور دور سے آئیں گے
اب ابرہہ نے کثیررقم خرچ کرکے بڑا ہی خوبصورت عبادت خانہ صنعا شہر میں تعمیر کرایا۔ اس نے لوگوں کو حکم دیا کہ ہر سال وہاں آئو۔ لوگ کسی گورنر کے حکم پرتوعبادت نہیں کرتے۔ لطیفہ یہ ہوا کہ کسی من چلے نے اس نقلی معبد میں غلاظت پھیلادی۔اسی دوران ایک عرب قافلہ صنعا کے باہر ٹھہرا۔سوئے اتفاق کھانا پکانے کی وجہ سے ایندھن کی آگ بھڑک اٹھی اور وہ عمارت آگ کی لپیٹ میں جل کر راکھ ہوگئی۔
اس پر گورنر ابرہہ مشتعل ہوا۔ سخت طیش میں اس نے سوچا کہ عربوں کا خانہ کعبہ ڈھا دیا جائے۔ یہ خیال آتے ہی وہ فوج کے ساتھ ہاتھی لے کر مکہ کی طرف بڑھا۔ ہمارے رسول پاک سیدنامحمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا سردار عبدالمطلب اس زمانے میں خانہ کعبہ کے متولی تھے۔ انھوں نے حملے کی خبر سنی تو تباہی سے محفوظ رہنے کی خاطر اہلِ مکہ کو لے کر پہاڑ پر چڑھ گئے۔
اتفاق یہ ہوا کہ سردار عبدالمطلب کے اونٹ ابرہہ کے سپاہیوں نے پکڑ لیے۔ انہوں نے ابرہہ سے جا کر اپنے اونٹ مانگے تو وہ بڑا حیران ہوا۔ اس پر آپ نے فرمایا ’’اونٹ اللّٰہ کے فضل سے ہمارے ہیں لہٰذا وہی واپس طلب کر رہے ہیں۔ خانہ کعبہ اللّٰہ کا گھر ہے، وہی اس کی حفاظت کرے گا۔‘‘
بہرحال ابرہہ حملہ کرنے کے لیے آگے بڑھاتو اللّٰہ تعالیٰ نے پرندوں کے جُھنڈ کے جُھنڈ بھیجے جنھوں نے اپنی چونچوںاور پنجوں سے فوج اور ہاتھیوں پر کنکر برسائے۔ اللّٰہ کی قدرت ہر کنکر سے فوجی اور ہاتھی یوں مرا جیسے مشین گن سے چھلنی کردیا گیا ہو۔یہاں تک کہ سوائے ایک سپاہی کے کوئی فوجی اور ہاتھی نہ بچا۔ اس آخری سپاہی نے بھی جب جا کر سارے لشکر کی بربادی کی خبر دی، تو اس کے سر پرمسلط پرندے نے کنکر گرایا ۔ وہ بھی ہاتھی سمیت اس طرح ہوگیا جیسے کھایا ہوا بُھس ریزہ ریزہ ہو جائے۔
اللّٰہ نے اپنے گھر کے دشمن تباہ کرنے کے لیے نہ فوجیں بھیجیں نہ لشکر، نہ ہاتھیوں کے مقابلے کے لیے ہاتھی، بلکہ پرندوں سے اسے بُرے انجام سے دوچار کرکے نافرمانوں اور باغیوں کو پیغام دیا کہ وہ خدائی لشکر کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔
یہ عبرت نام واقعہ اتنا عام ہوا کہ عرب اسے ہاتھیوں والا سال (عام الفیل)کہنے لگے۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ واقعہ ختم نبوت کے تاجدار امام الانبیاء سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش مبارک سے پچاس دن قبل پیش آیا تھا۔ یہ اس بات کا اعلان تھا کہ آنے والی مبارک ہستی کے دشمنوں کو اللّٰہ اسی طرح نیست و نابود کرتا رہے گا۔
ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمیں اللّٰہ نے اپنے محبوب پاک کا کلمہ بھی نصیب فرمایا اور اُن کے ذریعے قرآن مجید جیسی آخری مبارک آسمانی کتاب عطا فرمائی تاکہ ہم اس پر عمل پیرا ہو کر دُنیا و آخرت میں کامیاب ہوں۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم نہ قرآن پاک تلاوت کرتے نہ عمل پیرا ہوتے ہیں ۔اسی باعث ذلت و رسوائی سے دوچار ہیں۔ اللّٰہ ہمیں پکا مسلمان ، سچا پاکستانی اور بہت ہی اچھا مومن بنائے

0 comments:

Post a Comment