Tuesday 18 June 2013


مدینہ میں آفتاب رِسالت

“مدینہ منورہ” کا پرانا نام “یثرب” ہے۔ جب حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس شہر میں سکونت فرمائی تو اس کا نام “مدینۃ النبی” (نبی کا شہر) پڑ گیا۔ پھر یہ نام مختصر ہو کر “مدینہ” مشہور ہو گیا۔


تاریخی حیثیت سے یہ بہت پرانا شہر ہے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جب اعلان نبوت فرمایا تو اِس شہر میں عرب کے دو قبیلے “اوس” اور “خزرج” اور کچھ “یہودی” آباد تھے۔ اوس و خزرج کفارِ مکہ کی طرح “بت پرست” اور یہودی “اہل کتاب” تھے۔ اوس و خزرج پہلے تو بڑے اتفاق و اتحاد کے ساتھ مل جل کر رہتے تھے مگر پھر عربوں کی فطرت کے مطابق اِن دونوں قبیلوں میں لڑائیاں شروع ہو گئیں۔ یہاں تک کہ آخری لڑائی جو تاریخ عرب میں “جنگ بعاث” کے نام سے مشہور ہے اس قدر ہولناک اور خونریز ہوئی کہ اس لڑائی میں اوس و خزرج کے تقریباً تمام نامور بہادر لڑ بھڑ کر کٹ مر گئے اور یہ دونوں قبیلے بے حد کمزور ہوگئے۔ یہودی اگرچہ تعداد میں بہت کم تھے مگر چونکہ وہ تعلیم یافتہ تھے اس لئے اوس و خزرج ہمیشہ یہودیوں کی علمی برتری سے مرعوب اور ان کے زیر اثر رہتے تھے ۔

اِسلام قبول کرنے کے بعد رسولِ رحمت صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی مقدس تعلیم و تربیت کی بدولت اوس و خزوج کے تمام پرانے اختلافات ختم ہو گئے اور یہ دونوں قبیلے شیر و شکر کی طرح مل جل کر رہنے لگے۔ اور چونکہ اِن لوگوں نے اسلام اور مسلمانوں کی اپنے تن من دھن سے بے پناہ امداد و نصرت کی اِس لئے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان خوش بختوں کو ” انصار ” کے معزز لقب سے سرفراز فرما دیا اور قرآن کریم نے بھی ان جاں نثار ان اسلام کی نصرت رسول و امدادِ مسلمین پر ان خوش نصیبوں کی مدح و ثنا کا جابجا خطبہ پڑھا اور ازروئے شریعت انصار کی محبت اور ان کی جناب میں حسن عقیدت تمام اُمت ِ مسلمہ کیلئے لازم الایمان اور واجب العمل قرار پائی۔
(رضی اﷲ تعالیٰ عنہم اجمعین)

0 comments:

Post a Comment