Wednesday 5 June 2013


کعبہ کی تعمیر
الکعبة المشرفة

آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی راست بازی اور امانت و دیانت کی بدولت خداوند عالم عزوجل نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کو اس قدر مقبولِ خلائق بنا دیا اور عقلِ سلیم اور بے مثال دانائی کا ایسا عظیم جوہر عطا فرما دیا کہ کم عمری میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے عرب کے بڑے بڑے سرداروں کے جھگڑوں کا ایسا لاجواب فیصلہ فرما دیا کہ بڑے بڑے دانشوروں اور سرداروں نے اس فیصلہ کی عظمت کے آگے سر جھکا دیا، اور سب نے بالاتفاق آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو اپنا حکم اور سردارِ اعظم تسلیم کر لیا۔ چنانچہ اس قسم کا ایک واقعہ تعمیر کعبہ کے وقت پیش آیا جس کی تفصیل یہ ہے کہ جب آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی عمر پینتیس (۳۵) برس کی ہوئی تو زور دار بارش سے حرم کعبہ میں ایسا عظیم سیلاب آ گیا کہ کعبہ کی عمارت بالکل ہی منہدم ہو گئی۔ حضرت ابراہیم و حضرت اسمٰعیل علیہما السلام کا بنایا ہوا کعبہ بہت پرانا ہو چکا تھا۔


عمالقہ، قبیلۂ جرہم اور قصی وغیرہ اپنے اپنے وقتوں میں اس کعبہ کی تعمیر و مرمت کرتے رہے تھے مگر چونکہ عمارت نشیب میں تھی، اس لئے پہاڑوں سے برساتی پانی کے بہاؤ کا زور دار دھارا وادیٔ مکہ میں ہو کر گزرتا تھا اور اکثر حرم کعبہ میں سیلاب آ جاتا تھا۔ کعبہ کی حفاظت کے لیے بالائی حصہ میں قریش نے کئی بند بھی بنائے تھے مگر وہ بند بار بار ٹوٹ جاتے تھے۔ اس لیے قریش نے یہ طے کیا کہ عمارت کو ڈھا کر پھر سے کعبہ کی ایک مضبوط عمارت بنائی جائے جس کا دروازہ بلند ہو اور چھت بھی ہو۔ چنانچہ قریش نے مل جل کر تعمیر کا کام شروع کر دیا۔اس تعمیر میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم بھی شریک ہوئے اور سرداران قریش کے دوش بدوش پتھر اٹھا اٹھا کر لاتے رہے۔ مختلف قبیلوں نے تعمیر کے لیے مختلف حصے آپس میں تقسیم کر لئے۔
جب عمارت ’’ حجر اسود ‘‘ تک پہنچ گئی تو قبائل میں سخت جھگڑا کھڑا ہو گیا۔ ہر قبیلہ یہی چاہتا تھا کہ ہم ہی ’’ حجراسود ‘‘ کو اٹھا کر دیوار میں نصب کریں۔ تا کہ ہمارے قبیلہ کے لئے یہ فخر و اعزاز کا باعث بن جائے۔ اس کشمکش میں چار دن گزر گئے یہاں تک نوبت پہنچی کہ تلواریں نکل آئیں بنو عبدالدار اور بنو عدی کے قبیلوں نے تو اس پر جان کی بازی لگا دی اور زمانہ جاہلیت کے دستور کے مطابق اپنی قسموں کو مضبوط کرنے کے لئے ایک پیالہ میں خون بھر کر اپنی انگلیاں اس میں ڈبو کر چاٹ لیں۔
پانچویں دن حرم کعبہ میں تمام قبائل عرب جمع ہوئے اور اس جھگڑے کو طے کرنے کے لئے ایک بڑے بوڑھے شخص نے یہ تجویز پیش کی کہ کل جو شخص صبح سویرے سب سے پہلے حرم کعبہ میں داخل ہو اس کو پنچ مان لیا جائے۔ وہ جو فیصلہ کر دے سب اس کو تسلیم کر لیں۔ چنانچہ سب نے یہ بات مان لی۔
خدا عزوجل کی شان کہ صبح کو جو شخص حرم کعبہ میں داخل ہوا وہ حضور رحمت عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہی تھے۔ آپ کو دیکھتے ہی سب پکار اٹھے کہ واللہ یہ ’’امین‘‘ ہیں لہٰذا ہم سب ان کے فیصلہ پر راضی ہیں۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس جھگڑے کا اس طرح تصفیہ فرمایا کہ پہلے آپ نے یہ حکم دیا کہ جس جس قبیلہ کے لوگ حجر اسود کو اس کے مقام پر رکھنے کے مدعی ہیں ان کا ایک ایک سردار چن لیا جائے۔ چنانچہ ہر قبیلہ والوں نے اپنا اپنا سردار چن لیا۔ پھر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی چادر مبارک کو بچھا کر حجراسود کو اس پر رکھا اور سرداروں کو حکم دیا کہ سب لوگ اس چادر کو تھام کر مقدس پتھر کو اٹھائیں۔ چنانچہ سب سرداروں نے چادر کو اٹھایا اور جب حجر اسود اپنے مقام تک پہنچ گیا تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے متبرک ہاتھوں سے اس مقدس پتھر کو اٹھا کر اس کی جگہ پر رکھ دیا۔اس طرح ایک ایسی خونریز لڑائی ٹل گئی جس کے نتیجہ میں نہ معلوم کتنا خون خرابا ہوتا۔
(سيرت ابن هشام ج۱ ص۱۹۶ تا۱۹۷)


حجر اسود

خانہ کعبہ کی عمارت بن گئی لیکن تعمیر کے لئے جو سامان جمع کیا گیا تھا وہ کم پڑ گیا اس لئے ایک طرف کا کچھ حصہ باہر چھوڑ کر نئی بنیاد قائم کر کے چھوٹا سا کعبہ بنا لیا گیا کعبہ معظمہ کا یہی حصہ جس کو قریش نے عمارت سے باہر چھوڑ دیا “حطیم” کہلاتا ہے جس میں کعبہ معظمہ کی چھت کا پرنالا گرتا ہے۔

0 comments:

Post a Comment