Wednesday 5 June 2013

Half ul Fozool...حلف الفُضول

Posted by Unknown on 01:32 with No comments
حلف الفُضول
روز روز کی لڑائیوں سے عرب کے سیکڑوں گھرانے برباد ہو گئے تھے۔ ہر طرف بدامنی اور آئے دن کی لوٹ مار سے ملک کا امن و امان غارت ہو چکا تھا۔ کوئی شخص اپنی جان و مال کو محفوظ نہیں سمجھتا تھا۔ نہ دن کو چین، نہ رات کو آرام،۔
اس وحشت ناک صورتِ حال سے تنگ آکر کچھ صلح پسند لوگوں نے جنگ فجار کے خاتمہ کے بعد ایک اصلاحی تحریک چلائی۔ چنانچہ بنو ہاشم، بنو زہرہ، بنو اسد وغیرہ قبائل قریش کے بڑے بڑے سردار ان عبداللہ بن جدعان کے مکان پر جمع ہوئے اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے چچا زبیر بن عبدالمطلب نے یہ تجویز پیش کی کہ موجودہ حالات کو سدھارنے کے لئے کوئی معاہدہ کرنا چاہیے۔
چنانچہ خاندان قریش کے سرداروں نے ”بقائے باہم” کے اصول پر ”جیو اور جینے دو” کے قسم کا ایک معاہدہ کیا اور حلف اٹھا کر عہد کیا کہ ہم لوگ:۔

(۱)
ملک سے بے امنی دور کریں گے۔
(۲)
مسافروں کی حفاظت کریں گے۔
(۳)
غریبوں کی امداد کرتے رہیں گے۔
(۴)
مظلوم کی حمایت کریں گے۔
(۵)
کسی ظالم یا غاصب کو مکہ میں نہیں رہنے دیں گے۔

اس معاہدہ میں حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم بھی شریک ہوئے اور آپ کو یہ معاہدہ اس قدر عزیز تھا کہ اعلانِ نبوت کے بعد آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ اس معاہدہ سے مجھے اتنی خوشی ہوئی کہ اگر اس معاہدہ کے بدلے میں کوئی مجھے سرخ رنگ کے اونٹ بھی دیتا تو مجھے اتنی خوشی نہیں ہوتی۔
اور آج اسلام میں بھی اگر کوئی مظلوم “یاآل حلف الفضول” کہہ کر مجھے مدد کے لئے پکارے تو میں اس کی مدد کے لئے تیار ہوں۔

اس تاریخی معاہدہ کو “حلف الفضول” اس لئے کہتے ہیں کہ قریش کے اس معاہدہ سے بہت پہلے مکہ میں قبیلہ “جرہم” کے سرداروں کے درمیان بھی بالکل ایسا ہی ایک معاہدہ ہوا تھا۔ اور چونکہ قبیلۂ جرہم کے وہ لوگ جو اس معاہدہ کے محرک تھے، ان سب لوگوں کا نام “فضل” تھا یعنی فضل بن حارث اور فضل بن وداعہ اور فضل بن فضالہ اس لئے اس معاہدہ کا نام “حلف الفضول” رکھ دیا گیا، یعنی ان چند آدمیوں کا معاہدہ جن کے نام “فضل” تھے۔
(سيرت ابن هشام ج۱ ص۱۳۴)

0 comments:

Post a Comment