معیار گِرتا نہ دوستوں کا
نہ ہم بھی دشمن کی ڈھال ہوتے
ضعیف دشمن پہ وار کرتے
تو وقت کے ہم دجال ہوتے
نہیں تھا اپنا مِزاج ایسا
نہیں تھا اپنا مِزاج ایسا
کہ ظرف کھو کر انا بچاتے
وگرنہ ایسے جواب دیتے
کہ پھر نہ پیدا سوال ہوتے
ہماری فطرت کو جانتا ہے
ہماری فطرت کو جانتا ہے
تبھی تو دشمن یہ کہہ رہا ہے
ہے دشمنی میں بھی ظرف ایسا
جو دوست ہوتے کمال ہوتے
جو آ کے تم حال پوچھ لیتے
جو آ کے تم حال پوچھ لیتے
تو اتنی لمبی نہ عمر لگتی
کہ وصل کی اِک گھڑی میں سارے
گزر گئے ماہ و سال ہوتے
اسے مبارک مقام اونچا
اسے مبارک مقام اونچا
صحیح حقیقت ہمیں پتہ ہے
بناتے رشتوں کو ہم بھی سیڑھی
تو آسماں کی مثال ہوتے
0 comments:
Post a Comment