Wednesday 10 July 2013

She Died

Posted by Unknown on 04:24 with No comments
وہ مر گئی

میں اسٹار بک کافی ہاؤس میں داخل ہوا اور بیٹھنے کے لیے ہرطرف نظردوڑائی لیکن کوئی سیٹ خالی نہیں تھی۔ میں آرڈر کرنے والی لائن میں کھڑا ہوگیا- لنچ کا وقت تھا، میں نے سوچا جب تک میں کھڑکی تک پہنچوں گا کوئی نہ کوئی سیٹ خالی ہوجائے گی۔ کافی لینے کے بعد میں نے ایک دفعہ پھر سے جگہ تلاش کرنے کے لیے ہر طرف نظر دوڑائی لیکن کوئی سیٹ خالی نہیں تھی۔ میں کاؤنٹر پرٹیک لگا کر کھڑا ہوگیا۔ ہرطرح کے لوگ آ جا رہے تھے۔ قریب کی یونیورسٹی سے طالب علم ، آفس ورکر آس پاس کی بلڈنگوں سے اور وہ لوگ جو کہ خریداری سے وقفہ لے رہے تھے۔

وہ اکیلی گلاس کی دیوار کے نزدیک ایک کرسی پر بیٹھی تھی اس کی میز پر ایک خالی کافی کا کپ تھا اور اس کی نگاہ میز پر رکھے ہوئے پرچے پر تھی۔ بالو ں کی ایک لٹ اس کے گالوں کو چھو رہی تھی۔ میں نے اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کوگالوں پر ڈھلکتے دیکھا۔ آنسو گالوں سے پھسل کر کاغذ کے پرچے پرگرے۔ میں نے اندازہ لگانے کی کوشش کی اس کاغذ پر کیا لکھا ہوسکتا ہے جو کہ ایک حسین لڑکی کو سرے عام رلا دے۔ شاید اُس سے، اُس کے محبوب نے ملنے کا وعدہ کیا تھا لیکن نہیں آیا یا خط گھر سے آیا ہو اور والدین نے اس کی شادی کسی اور سے کرنے کا وعدہ کرلیا ہو یا وہ اس کی پڑھائی کے پیسے نہیں بھیج سکتے۔

میں ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا اور میری نظریں اس پرتھیں کہ اس نے اپنی نظریں اوپر اٹھائیں۔ ہماری نظریں ایک مختصر سے لمحہ کے لیے ملیں اوراس نے اپنی آنکھوں کو پھر سے جھکا لیا۔ یہ آنکھیں کتنی اُداس ہیں ، میں نےان کا درد اپنے دل میں محسوس کیا۔ اس نے خط کو پھر سے پڑھا اور اس کےگالوں پر آنسؤں کی ایک لکیر سی بن گئ۔

اچانک وہ کھڑی ہوگئ اور تیزی سے دروازے کی طرف چلی گئی۔ اس نے دروزا ہ کھولا اور فٹ پاتھ پر اترگئ ۔ میں نے اس بھیڑ میں اس پر نگاہ رکھنے کی کوشش کی۔ وہ ٹریفک سِگنل کے پاس رکی، ایک لمحہ وہ فٹ پاتھ پہ تھی اور دوسرے لمحے سڑک پر۔ میں نے کار کے بریکوں کی آواز سنی۔ کپ رکھ کرمیں باہردوڑا۔ لوگ اس کے اردگرد جمع تھے۔ میں نے بڑی مشکل سے راستہ بنایا۔ وہ خون میں لت پت تھی۔

کیا کسی نے ایمبولِنس کے لیے کال کیا؟ میں چلایا۔

“ ہاں“ ۔ کسی نے کہا۔

میں نے اس کے قریب بیٹھ کر اس کی نبض تلاش کرنے کی کوشش کی۔ نبض نہیں تھی۔ میں نےاس کے سینے پر کان رکھ کراس کے دل کی دھڑکن کو سننے کی کوشش کی۔ دل بہت آہستگی سے دھڑک رہا تھا - اس نے ایک ہچکی لی اور اُس کا دل خاموش ہوگیا۔

کوئی چلایا۔ " اس کو سی پی آر دو"۔ میں نے اس کی ناک کو بند کرکے اس کے منہ سے منہ ملادیا اور اس کو لمبی لمبی سانسیں دینے لگا۔ پھر اس کے سینہ پر پندرہ دفعہ دباؤ ڈالا۔ میں نے پھر سے اس کے دل کی آواز کو سننا چاہا ۔ خاموشی بالکل خاموشی۔ میں نے پھر سے اس کو اپنا سانس دینے کی کوشش کی مگراس کے لب سرد ہو چکے تھے۔ سڑک پر مکمل خاموشی چھاگئ۔

دھیرے سے میں نے کاغذ کے پرچے کو اس کے ہاتھ سے جدا کیا۔ اس پر لکھا تھا۔ میں تمہارے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ تمہیں جب یہ خط ملے گا میں اس دنیا کو چھوڑ چکا ہوں گا۔ ایک مدہم آواز اس کے پرس میں رکھے ہوۓ سیل فون سے آرہی تھی۔ میں نے فون میں کہا ۔ “جی“۔ " کیا ناز وہاں ہیں مجھے ان کو بہت ضروری پیغام دینا ہے"۔ “ تم کون ہو"؟ میں نے پوچھا " میں اس کا بھائی ہوں۔ ناز سے کہنا کہ جمیل زندہ ہے“۔ میرے ہاتھ سے سیل فون گرگیا۔

0 comments:

Post a Comment