Sunday, 18 August 2013

ہجرت کا پانچواں سال

کفار کیسے بھاگے؟

حضرت نعیم بن مسعود اشجعی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ قبیلہ غطفان کے بہت ہی معزز سردار تھے اور قریش و یہود دونوں کو ان کی ذات پر پورا پورا اعتماد تھا یہ مسلمان ہو چکے تھے لیکن کفار کو ان کے اسلام کا علم نہ تھا انہوں نے بارگاہ رسالت میں یہ درخواست کی کہ یا رسول ﷲ! صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اگر آپ مجھے اجازت دیں تو میں یہود اور قریش دونوں سے ایسی گفتگو کروں کہ دونوں میں پھوٹ پڑ جائے، آپ نے اس کی اجازت دے دی چنانچہ انہوں نے یہود اور قریش سے الگ الگ کچھ اس قسم کی باتیں کیں جس سے واقعی دونوں میں پھوٹ پڑ گئی۔

ابو سفیان شدید سردی کے موسم، طویل محاصرہ، فوج کا راشن ختم ہو جانے سے حیران و پریشان تھا جب اس کو یہ پتا چلا کہ یہودیوں نے ہمارا ساتھ چھوڑ دیا ہے تو اس کا حوصلہ پست ہو گیا اور وہ بالکل ہی بددل ہو گیا پھر ناگہاں کفار کے لشکر پر قہر قہار و غضب جبار کی ایسی مار پڑی کہ اچانک مشرق کی جانب سے ایسی طوفان خیز آندھی آئی کہ دیگیں چولھوں پر سے الٹ پلٹ ہو گئیں، خیمے اکھڑ اکھڑ کر اڑ گئے اور کافروں پر ایسی وحشت اور دہشت سوار ہو گئی کہ انہیں راہ فرار اختیار کرنے کے سوا کوئی چارہ کار ہی نہیں رہا، یہی وہ آندھی ہے جس کا ذکر خداوند قدوس نے قرآن میں اس طرح بیان فرمایا کہ

اَيُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْکُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَيْکُمْ اِذْ جَآءَتْکُمْ جُنُوْدٌ فَاَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيْحًا وَّ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْهَا ط وَ کَانَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرًا۔
(احزاب)


اے ایمان والو! خدا کی اس نعمت کو یاد کرو جب تم پر فوجیں آ پڑیں تو ہم نے ان پر آندھی بھیج دی۔ اور ایسی فوجیں بھیجیں جو تمہیں نظر نہیں آتی تھیں اور ﷲ تمہارے کاموں کو دیکھنے والا ہے۔

ابو سفیان نے اپنی فوج میں اعلان کرا دیا کہ راشن ختم ہو چکا، موسم انتہائی خراب ہے، یہودیوں نے ہمارا ساتھ چھوڑ دیا لہٰذا اب محاصرہ بے کار ہے، یہ کہہ کر کوچ کا نقارہ بجا دینے کا حکم دے دیا اور بھاگ نکلا قبیلہ غطفان کا لشکر بھی چل دیا بنو قریظہ بھی محاصرہ چھوڑ کر اپنے قلعوں میں چلے آئے اور ان لوگوں کے بھاگ جانے سے مدینہ کا مطلع کفار کے گردو غبار سے صاف ہو گیا۔
(مدارج ج۲ ص۱۷۲ و زرقانی ج۲ ص۱۱۶ تا ۱۱۸)

0 comments:

Post a Comment